عمران خان :
سونے کے زیورات کو ٹکیوں میں بدلنے والی لیبارٹریوں کا غیر دستاویزی دھنداو سٹہ بدستور جاری ہے۔ کالے دھن کو چھپانے کے لئے ڈالر کے بجائے گولڈ بارز ملک میں ذخیرہ کرنے اور بیرون ملک منتقل کرنے کا سلسلہ تیز ہوگیا۔ ملکی معاشی صورتحال میں متعدد حکومتی دعوؤں کے باوجود ماہانہ اربوں روپے مالیت کا کاروبار کرنے والی صرافہ مارکیٹوں کے لئے سرکاری ریگولیٹری نظام قائم نہ ہوسکا۔ ملک میں سناروں اور لیبارٹری مالکان کو ایف بی آر میں رجسٹرڈ کرکے ان کی روزانہ کی خریدو فروخت کا ریکارڈ رکھنے اور اس پر نافذ ڈیوٹی اور ٹیکس وصولی کا کمپیوٹرائزڈ نظام مرتب کرنے کی کوششیں 2021ء سے جاری ہیں جس کے لئے اب ایک خصوصی ایف بی آر کا شعبہ بھی قائم ہے۔ تاہم اب تک اس کو عملی جامعہ نہیں پہنایا جاسکا۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ملکی اداروں کی نااہلی اور غفلت کی وجہ سے سونے کی خریدو فروخت کی مد میں قومی خزانہ روزانہ کروڑوں روپے کے سیلز ٹیکس سے محروم کیا جارہا ہے۔ سالانہ سینکڑوں ارب روپے کے محصولات دے سکنے والی صرافہ مارکیٹوں اور صرافہ لیبارٹریوں کو شتر بے مہار کی طرح چھوڑ دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں ملک کے لاکھوں متمول افراد سرمایہ کاری کی غرض سے یومیہ اربوں روپے مالیت کے سونے کے بسکٹ خریدتے ہیں، جنہیں یا تو ڈمپ کردیا جاتا ہے یا پھر کچھ عرصہ بعد قیمت بڑھنے پر فروخت کرکے بھاری منافع کما لیا جاتا ہے۔
ایف بی آر کی جانب سے گزشتہ دو برسوں کی کوششوں کے باوجود اب تک ملک میں موجود صرافہ بازوں کی ہزاروں دکانوں، صرافہ لیبارٹریوں کو ٹیکس دائرہ میں لانے کے لئے رجسٹرڈ نہیں کیا جاسکا اور نہ ہی ان دکانوں اور لیبارٹریوں پر روزانہ ہونے والی خریدو فروخت کا درست تخمینہ لگانے کے لئے انہیں پوائنٹ آف سیل یعنی پی او سسٹم سے منسلک کیا جاسکا ہے۔ ایف بی آر ذرائع کے بقول اس کی وجہ سے ایک جانب وفاقی وزارت خزانہ اور ایف بی آر حکام کی سستی ہے، جبکہ دوسری بڑی وجہ ملک کے ہزاروں ان بااثر افراد کا دباؤ ہے جو اپنی اصل دولت سامنے آنے کے خوف سے سونے کے لین دین کو دستاویزی نہ بنانے پر مُصر ہیں۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ملک میں سونے کی خرید و فروخت پر بیچنے اور خریدنے والے افراد پر 17 فیصد سیلز ٹیکس وصول نہ ہونے کی وجہ سے ملکی خزانہ روزانہ کروڑوں روپے اور سالانہ اربوں روپے کے محصولات سے محروم ہو رہا ہے۔ ملک میں سرمایہ کاروں کی خود غرضی اور صرافہ تاجروں کی سٹہ بازی کے نتیجے میں فی تولہ سونا سوا دو لاکھ روپے تک پہنچنے کی وجہ سے عام شہریوں کی دسترس سے باہر ہو چکا ہے۔ جبکہ جیولری کی دکانوں سے ہونے والی خرید وفروخت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ اور سونے کا 90 فیصد کاروبار بسکٹ کی صورت میں لیباریوں تک محدود ہوگیا ہے۔
ذرائع کے بقول چونکہ سونے میں سرمایہ کاری زیورات کے بجائے بسکٹ کی صورت میں کی جا رہی ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ زیورات سوا دو لاکھ روپے تولہ خریدنے کے بعد بیچنے والے کو 15 فیصد کٹوتی کے بعد رقم واپس ملتی ہے۔ تاہم طلائی بسکٹ خریدنے والا جب فروخت کرنے جاتا ہے تو اسی قیمت میں بک جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سونے کی لیبارٹریوں میں اس وقت ’’لیبو اور دیبو‘‘ یعنی لینا اور دینا کا کام عروج پر ہے اور کراچی صدر کی مارکیٹ اس کا گڑھ بن چکی ہے۔ جہاں سونے کا لین دین بغیر کسی رسید اور منی ٹریل کے ریکارڈ کے بغیر کیا جاتا ہے۔ اربوں روپے کا یہ کاروبار اسٹیٹ بینک، سکیورٹی ایکسچینج کمیشن اور ایف بی آر کی مانیٹرنگ کے بغیر ہی کیا جا رہا ہے۔
مارکیٹ ذرائع کے مطابق اگر یہ کاروبار دستاویزی ہوجائے تو ایک جانب سونے کے ہر لین دین پر 17فیصد سیلز ٹیکس ملکی خزانے کو مل سکتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب ان ہزاروں تاجروں کا اصل کاروباری حجم سامنے آنے پر انکم ٹیکس وصولی میں بھی اربوں روپے کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ ذرائع کے بقول اس وقت طلائی بسکٹس میں سرمایہ کاری بڑھ چکی ہے کہ ہزاروں افراد یہ بسکٹ لے کر رکھ رہے ہیں۔ جبکہ لیبارٹی مالکان روزانہ طلائی بسکٹس کی سیل پرچیز کرکے لاکھوں روپے منافع وصول کر رہے ہیں۔ سرماری دستاویزات کے مطابق سونے کے بسکٹوں کو بیرون ملک خفیہ ادائیگیوں کے لئے بھی اسمگل کرکے دبئی اور دیگر ممالک میں منتقل کیا جا رہا ہے، جس کے لئے ایئر پورٹ پر شعبہ بین الاقوامی آمد اور روانگی پر رشوت دی جاتی ہے۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق دو برس قبل فنانشل ٹاسک فورس کے مطالبات کی روشنی میں ایف بی آر کی جانب سے ملک بھر کے جیولرز کے مالی لین دین کے معاملات کو ریگولیٹ کرنے کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا، جس میں ملک بھر کے جیولرز اور لیبارٹری مالکان کو سب سے پہلے اپنے کاروبار کو ایف بی آر میں رجسٹرڈ کروانے کی ہدایات جاری کی گئیں اور اس کے بعد انہیں 20 لاکھ روپے سے زائد کے ہر لین دین کا ریکارڈ ایف بی آر کو فراہم کرنے کے ساتھ ہی سیاسی شخصیات اور ان کے عزیز اقارب و ملازمین کے ساتھ لین دین کی معلومات بھی ایف بی آر کو دینے کی ہدایات جاری کی گئیں۔ قوانین کے تحت یہ ریکارڈ پانچ برس تک رکھنا بھی لازمی قرار دیا گیا۔ یعنی دکان پر آکر سونا خریدنے اور بیچنے والے کے شناختی کوائف، ذرائع آمدنی، ویڈیو فوٹیج وغیرہ کو لازمی قرار دیا گیا۔
ڈائریکٹوریٹ آف نان فنانشل بزنس پروفیشن کے ایپ میں جمع ہونے والی معلومات کی چھان بین میں اگر خریداری کرنے والے صارفین کی منی ٹریل پوری نہ ہو یا اس میں ابہام ہو تو اس کی انکوائری میں صارف شہری کے ساتھ ہی جیولر بھی شامل تفتیش کیا جاسکتا ہے۔ ان قوانین کے تحت یہ کارروائی اینٹی منی لاندرنگ اور کاؤنٹر ٹیررازم فنڈنگ کے قوانین کے تحت کی جا سکتی ہے۔
ذرائع کے بقول سفارشات کے بعد عملی اقدامات کے لئے 2021ء کے آغاز میں ہی ملک بھر کے ہزاروں جیولرز کو ایف بی آر میں اپنے مکمل کوائف کے ساتھ رجسٹریشن کروانے کی ہدایات جاری کی گئیں، جس کے لئے ایف بی آر میں ایک ڈائریکٹوریٹ قائم کرکے اس کے اطلاق کے لئے کام شروع کردیا گیا۔
ابتدائی طور پر انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ 2010ء کے سیکشن 6 اے کے تحت ملک بھر کے 56 ہزار سے زائد جیولرزاور اسٹیٹ ایجنٹس کو رجسٹریشن کے لئے نوٹس جاری کئے گئے۔ تاہم اب تک عملی طور پر 5 فیصد کاروبار کو بھی ریکارڈ میں نہیں لایا جاسکا ہے۔ قوانین کے تحت خود خلاف ورزی کرنے والے سونے کے تاجر جبکہ ضرورت پڑنے پر اداروں کو مشکوک صارف کی معلومات فراہم نہ کرنے پر 10 کروڑ روپے تک جرمانہ ادا ہو سکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کی کڑی مانیٹرنگ کے نتیجے میں ملک بھر کے ہزاروں سرمایہ کاروں نے اپنے اربوں روپے کا سرمایہ نکال کر سونے میں کھپانا شروع کردیا۔ ایک دم ڈیمانڈ بڑھنے سے سونے کی قیمت میں صرف گزشتہ ایک ماہ میں 25 ہزار روپے فی تولہ کا ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا جس نے پاکستان کی تاریخ کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ۔سونے کی مارکیٹ کی اس تیزی سے سٹہ بازوں اور زیورات کو سونے کی ٹکیوں میں بدل کر فروخت کرنے والے لیبارٹری مالکان کی تجوریوں میں راتو رات کروڑوں روپے بھرنا شروع کر دیے۔