نواز طاہر :
الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن متنازع اور ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے اسے بلّے کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑنے کیلئے بیس روز کے اندر انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کی ڈیڈ لائن دیدی ہے، جس میں بادی النظر میں پی ٹی آئی کیلئے کاغذی کارروائی کے الیکشن کروانے بھی ممکن دکھائی نہیں دیتے اور یہ کہ پارٹی آئندہ الیکشن میں نہ صرف بلے کا انتخابی نشان حاصل کرنے سے محروم رہ سکتی ہے بلکہ اس کا الیکشن میں طور پارٹی حصہ لینا بھی مشکلات کا شکار ہوسکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں صرف عدلیہ ہی پی ٹی آئی کو ریلیف دلانے کا ایک واحد ذریعہ ہوسکتی ہے۔
جبکہ پی ٹی آئی کے ذرائع اپنے پارٹی الیکشن کو درست قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انٹرا پارٹی الیکشن درست تھے اور بھی ہوسکتے ہیں۔ لیکن اس معاملے کو عدالت میں چیلنج کرنے اور دیگر امور کا جائزہ لینے کیلئے لیگل ٹیم نے کام شروع کردیا ہے۔ البتہ ہم الیکشن کمیشن کے فیصلے کو پی ڈی ایم کا فیصلہ اور ’’انٹرا پارٹی الیکشن بہانہ، عمران خان نشانہ‘‘ سمجھتے ہیں۔
واضح رہے الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ پی ٹی آئی آئین کے مطابق شفاف اور منصفانہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروا سکی، پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن قابلِ اعتراض اور متنازع ہیں، ایسے انٹرا پارٹی الیکشن کو قبول نہیں کیا جا سکتا، الیکشن کمیشن کسی اقدام سے قبل نرم رویہ برت رہا ہے۔ لہٰذا پی ٹی آئی بیس روز میںانٹرا پارٹی الیکشن کروائے اور سات روز کے اندر اپنے نتائج الیکشن کمیشن میں جمع کروائے بصورتِ دیگر پی ٹی آئی الیکشن نہ کرانے پر انتخابی نشان لینے کیلئے نااہل ہو گی۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے پر عملدرآمد اور اس پر رائے دینے کیلئے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی بڑی تعداد جیلوں میں بند، روپوش ہونے کے باعث رابطے سے گریزاں ہے۔ تاہم پی ٹی آئی سینٹرل پنجاب کے سینئر نائب صدر اکمل باری کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی مکمل طور پر درست تھے، صرف پی ٹی آئی کو ٹارگٹ اور فوکس کیا جارہا ہے، اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنا ہے یا کوئی اور قدم اٹھانا ہے اس کا فیصلہ پی ٹی آئی چیئرمین نے کرنا ہے۔ جبکہ لیگل ٹیم نے اس کا جائزہ لینا شروع کردیا ہے۔ ہم ابھی بھی بلے کے نشان پر قائم ہیں اور اسی نشان پر الیکشن میں مخالفین کا مقابلہ کریں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ ’’انٹرا پارٹی الیکشن بہانہ ہیں، عمران خان نشانہ ہیں‘‘۔ مشکل ترین الیکشن میں انٹرا پارٹی الیکشن ہو بھی سکتے ہیں، لیکن ہم اپنے پہلے الیکشن کو بھی درست سمجھتے ہیں۔
انتخابی قوانین کے ماہر اور سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے نہ صرف جمہورییت سے ہمدردی کی بلکہ نرم فیصلہ دیا ہے۔ حالانکہ اس کیس میں کارروائی کے دوران پی ٹی آئی کا رویہ دیکھا جاتا تو سخت فیصلہ کرتے ہوئے ان کی درخواست مسترد کرکے انتخابی نشان پر الیکشن لڑنے سے ہی روکنے کا فیصلہ بھی جاری کرسکتا تھا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ جہاں ایک نرم رویے والا فیصلہ ہے وہیں پر اس نے پی ٹی آئی کو گائیڈ لائن بھی دی ہے اب اس گائیڈ لائن سے کوئی کتنا فائدہ اٹھاتا ہے؟ کس نظر سے دیکھتا ہے؟ اور اگلا قدم کیا اٹھاتا ہے؟ یہ الگ بات ہے۔ انہوں نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے جس کیس میں فیصلہ دیا ہے اس میں الیکشن کمیشن کی کارروائی کے دوران پی ٹی آئی کی طرف سے کوئی تعاون ہی نہیں کیا گیا اور میرٹ کے بجائے ٹال مٹول سے زیادہ کام لیا گیا ہے۔ حالانکہ الیکشن کمیشن ایک سال سے زیادہ عرصے سے پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے کہتا رہا ہے اور پی ٹی آئی اس پر وقت لیتی رہی اور اسے بظاہر سنجیدہ لیا ہی نہیں لیا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بیس روز کے اندر انٹرا پارٹی الیکشن کروانا اب لازم ہوگیا اور یہ سیاسی جماعتوں کیلئے پارلیمان کی راہداری پر گزرنے کیلئے لازمی شرط اور آئینی تقاضا ہے۔ جہاں تک انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کے طریقِ کار کی بات ہے تو یہ ہر جماعت نے اپنے پارٹی کے دستور کے مطابق کروانے ہیں۔ یہ طریقِ کار ہر جماعت کے دستور میں کچھ نہ کچھ مختلف بھی ہوسکتا ہے۔
کچھ پارٹیوں کے دستور میں نامزدگیوں کی گنجائش بھی موجود ہے، لیکن مرکزی عہدوں پر الیکشن کروانا بہرحال لازم ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر بحیثیت مجموعی سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی الیکشن دیکھے جائیں تو ان پر سوال اٹھتے ہیں اور شائد جماعت اسلامی ہی واحد جماعت بچتی ہے، جس کے طریقِ کار کے مطابق باقاعدہ الیکشن ہوتے ہیں۔
اگر انٹرا پارٹی الیکشن کا معاملہ سپریم کورٹ میں چلا جاتا ہے اور سپریم کورٹ تمام سیاسی جماعتوں سے ان کے انٹرا پاٹی الیکشن کا ریکارڈ طلب کرتی ہے تو میرے خیال میں ایک بڑا پنڈورا باکس کھل سکتا ہے اور کئی مسائل سامنے آسکتے ہیں۔ جہاں تک پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کا سوال ہے تو الیکشن اس جماعت کو بیس روز کے اندر ہر حال میں کروانا پڑیں گے بصورتِ دیگر وہ بلے کے انتخابی نشان ہی نہیں الیکشن لڑنے سے بھی محروم ہوجائے گی۔ ان بیس روز کی دی گئی مدت میں اضافے کیلئے پی ٹی آئی صرف عدالت س ہی رجوع کرسکتی ہے اور اسے وہیں سے کوئی ریلیف مل سکتا ہے لیکن عدالت نے بھی کیس کی فائل کو دیکھتے ہوئے ہی فیصلہ کرنا ہے۔