کابل حکومت نے کانفرنس کے انعقاد کو افغانستان کے امور میں مداخلت قرار دے دیا، فائل فوٹو
کابل حکومت نے کانفرنس کے انعقاد کو افغانستان کے امور میں مداخلت قرار دے دیا، فائل فوٹو

شمالی اتحاد کی دھمکیوں پر طالبان حکومت مشتعل

محمد قاسم :
روس میں طالبان مخالف شمالی اتحاد اور متحدہ جبہ کے رہنمائوں نے طالبان کے ساتھ سیاسی تصفیہ نہ ہونے پر مسلح جدوجہد کرنے کا اعلان کر دیا۔ جبکہ افغان طالبان نے روس سے احتجاج کر کے مخالفین کو پلیٹ فارم مہیا نہ کرنے کی درخواست کر دی۔

ذرائع کے مطابق گزشتہ روز روسی دارالحکومت ماسکو میں شمالی اتحاد کے سربراہ احمد مسعود اور متحدہ جبہ کے رہنمائوں نے ’’افغانستان ماضی اور مستقبل میں‘‘ نامی ایک کانفرنس میں شرکت کی جس میں احمد مسعود نے الزام لگایا کہ افغانستان میں طالبان حکومت نے عوام پر سختی شروع کی ہے جس کی وجہ سے تعلیمی نظام تباہ ہو گیا اور لوگوں کو معاشرے میں وہ حق نہیں ملتا جو ان کا حق ہے۔ بین الاقوامی برادری افغان طالبان پر دبائو میں اضافہ کریں تاکہ طالبان کو ایک سیاسی معاہدے پر رضامند کیا جائے۔

کانفرنس میں متحدہ جبہ کے رہنما استاد محقق نے کانفرنس میں دھمکی دی کہ اگر طالبان سیاسی معاہدے پر رضامند نہ ہوئے تو ہم مسلح جدوجہد شروع کر دیں گے۔ کیونکہ طالبان امن کی زبان نہیں سمجھتے اور طاقت سے ہی طالبان سیاسی معاہدہ کرنے پر رضامند ہو سکتا ہے۔ استاد محقق نے روس، چین، پاکستان اور ایران پر نکتہ چینی کی کہ ان ممالک کی وجہ سے طالبان کو سیاسی معاہدہ نہ کرنے کا حوصلہ ملا۔ کیونکہ ان ممالک نے طالبان کو سفری سہولیات فراہم کیں اور طالبان کو تجارتی اور دیگر امداد فراہم کی۔

دوسری جانب افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے روس سے احتجاج کرتے ہوئے اس طرح کی کانفرنس کو افغانستان کے معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔ ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے روس سے احتجاجی مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ماسکو میں افغان حکومت کے مخالفین کی کانفرنس کا انعقاد افغان معاملات میں مداخلت ہے۔ ایسی کانفرنسیں افغانستان کے مفاد میں نہیں ہیں۔ ان کی حکومت کو دعوت نہیں دی گئی جس کی وجہ سے افغان حکومت کا موقف سب سنتے۔

ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق چند ممالک افغان عوام کی جانب روکے گئے عناصر کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور انہیں بغاوت پر اکسانے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ ایک اچھا اقدام نہیں ہے۔ ہم نے روس کو اپنے اعتراضات سے آگاہ کیا ہے کہ ان کو دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ ان ممالک کے معاملات میں افغان حکومت غیر جانبدار ہے اور ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔

دھر اہم ذرائع نے بتایا کہ ماسکو کانفرنس سے افغان طالبان ناراض ہیں۔ کیونکہ کانفرنس میں ایران کے سوا دیگر تمام ممالک نے ایک وسیع البنیاد حکومت کے قیام پر زور دیا جو امریکہ و یورپ اور کئی اہم ممالک کا عرصہ دراز سے ایک اہم مطالبہ ہے۔ اور اس مطالبہ کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے گزشتہ 2 سال کے دوران کسی ایک بھی ملک نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا جس کی وجہ سے طالبان حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے۔

ذرائع کے مطابق شمالی اتحاد اور متحدہ جبہ، پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان ٹی ٹی پی کے حوالے سے پیدا ہونے والے اختلافات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ تاکہ طالبان کو ملنے والی مدد کو روکا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ماسکو کانفرنس میں طالبان کے خلاف مسلح کارروائیوں کی دھمکیاں دی گئیں اور کانفرنس میں ایک وسیع البنیاد حکومت پر معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں مسلح جدوجہد شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔