پانچوں ملزمان کو جوڈیشل میجسٹریٹ شرقی کی عدالت میں پیش کیا گیا، فائل فوٹو
پانچوں ملزمان کو جوڈیشل میجسٹریٹ شرقی کی عدالت میں پیش کیا گیا، فائل فوٹو

پولیس غفلت سے شاپنگ مال آتشزدگی کیس خراب ہونے کا خدشہ

کاشف ہاشمی :
راشد منہاس روڈ پر شاپنگ مال میں آتشزدگی کا کیس پولیس کی تحقیقاتی ٹیم کی غفلت، لاپرواہی اور سستی سے خراب ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا۔ پولیس کی جانب سے شاپنگ مال سیل کیے جانے کا دعوی صرف دعوے کی حد تک محدود ہے۔ سیل کرنے کے نام پر مال کے دروازوں پر صرف قناتیں لگائی گئی تھیں۔ سانحہ میں جاں بحق ہونے والوں میں سافٹ ویئر انجینیئر شاہزیب بھی شامل تھا۔ جس کی اگلے ماہ شادی طے تھی۔ جوان بیٹے کی ناگہانی موت نے بوڑھے ماں باپ سمیت خاندان پر قیامت ڈھا دی۔

واضح رہے کہ شاپنگ مال میں آگ کی نذر ہونے والوں کی تدفین کا سلسلہ جاری ہے۔ شاہراہ فیصل پولیس نے راشد منہاس روڈ پر واقع آر جے شاپنگ مال میں خوفناک آتشزدگی کے واقعے کا مقدمہ سرکار کی مدعیت میں درج کر لیا ہے۔ کیس میں کے الیکٹرک، فائر بریگیڈ اور دیگر حکام کے خلاف قتل، لاپرواہی اور نقصان کی ذمے داری کے الزامات شامل ہیں۔

ایڈیشنل آئی جی کراچی خادم حسین رند کی جانب سے ڈی آئی جی ایسٹ غلام اظفر مہیسر کی سربراہی میں بنائی جانے والی تین رکنی تحقیقاتی ٹیم نے جائے وقوعہ کا معائنہ کیا۔ جبکہ گزشتہ روز پولیس کے کرائم سین یونٹ نے بھی جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کیے تھے۔ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈی آئی جی غلام اظفر مہیسر، ایس ایس پی ایسٹ عرفان بہادر، ایس پی کلفٹن ایاز حسین، ایس ایچ او شاہراہ فیصل اور ایس آئی یو نے جائے وقوعے کا دورہ کیا تو وہاں آگ بجانے والے آلات پڑے ہوئے تھے۔ جو آگ سے جلے نہیں تھے اور ان پر کوئی نشان بھی موجود نہیں تھا۔

ذرائع نے بتایا کہ تحقیقاتی ٹیم نے طوفانی دورہ کیا تھا۔ ٹیم آئی اور جائے وقوعہ کا مختصراً معائنہ کرکے اور میڈیا ٹاک کرکے واپس چلی گئی۔ ڈی آئی جی ایسٹ نے صرف اتنا کہا کہ مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ جس میں کے الیکٹرک، فائر بریگیڈ اور دیگر ادارو ں کی غفلت سامنے آئی ہے۔ ایف آئی آر تو ابتدائی رپورٹ ہوتی ہے۔ باریک بینی سے تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو قانون کی گرفت میں لائیں گے اور ہر زاویے سے تحقیقات ہوگی۔ ٹیم میں این ای ڈی یونیورسٹی کے پروفیسر کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

شاہراہ فیصل پولیس نے سب انسپکٹر صدرالدین میرانی کی مدعیت میں مقدمہ الزام نمبر 1092/23 بجرم دفعات 322/436/427/288/285/34 درج کیا۔ جس میں مقدمہ مدعی کا کہنا تھا کہ آتشزدگی کے واقعے میں 11 افراد لقمہ اجل بنے اور متعدد افراد متاثرہ ہوئے۔ آتشزدگی کی اطلاع پر آر جے شاپنگ مال مین راشد منہاس روڈ گلشن اقبال پہنچا۔ جائے وقوعہ کا معائنہ کیا۔ حالات و واقعات دیکھے۔ موقع پر موجود لوگوں سے آگ لگنے کی وجوہات معلوم کیں۔

عینی شاہدین نے بتایا کہ پچیس نومبر کو بوقت صبح 5 بجے اچانک آر جے شاپنگ سینٹر کراچی میں آگ بھڑک اٹھی۔ جس نے دیکھتے ہی دیکھتے 6 منزلہ عمارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جس پر بلڈنگ میں موجود لوگوں نے اپنی جانیں بچانے کیلئے سیڑھیوں اور برقی لفٹ کا سہارا لیا۔ آگ کی شدت کی وجہ سے وہ لوگ جھلس گئے۔ جنہیں بذریعہ ایمبولنس مختلف اسپتالوں میں روانہ کیا گیا۔ شدید زخمی اشخاص میں سے کئی موقع پر ہی جاں بحق ہوئے۔ کچھ زیر علاج ہیں۔ فائر بریگیڈ نے موقع پر آگ پر قابو پایا۔

پولیس دعوے کے مطابق عمارت کے معائنہ میں پایا گیا کہ بلڈنگ 6 منزلہ تھی اور اس میں آگ بجھانے کے حفاظتی آلات اور ہنگامی اخراج کا راستہ بھی نہیں تھا۔ جس کی وجہ سے قوی شبہ ہے کہ آگ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی۔ جانچ و تفتیش کے دوران ہر بات دیکھی جائے گی کہ اس بلڈ نگ کا نقشہ کس نے پاس کیا اور فائر فائٹنگ کی کلیئرنس کس طرح دی گئی۔ لہذا کے الیکٹرک اور دیگر اداروں کی غفلت دیکھی جائے گی۔

مذکورہ بلڈنگ کی تعمیرات خلاف قوانین پاس کرنا، عمارت کی تعمیر میں نا قص مٹیریل کا استعمال اور غفلت و لا پرواہی کا مظاہرہ کیا گیا۔ جس کی وجہ سے قیمتی جانوں کا ضیاع اور متعدد لوگ زخمی ہوئے۔ یہ مجرمانہ غفلت افسوسناک ہے۔ تاہم مقدمہ میں پولیس نے عمارت کے مالکان اور انتظامیہ کو نامزد نہیں کیا۔ ذرائع نے بتایا کہ پولیس نے مال کو سیل کرنے کا دعوی کیا تھا۔ جوغلط ثابت ہوا۔ صرف قناتیں لگائی گئی تھیں۔ جبکہ جائے وقوعہ پر پولیس تک تعینات نہیں تھی۔ جب تھانے کی پولیس کو معلوم ہوا کہ تحقیقاتی ٹیم موقع پر آرہی ہے تو چند پولیس اہلکار وہاں پہنچ گئے۔مال کے اندر ایک مسجد میں چند لوگ موجود تھے۔ جنہیں پولیس نے میڈیا کے سامنے باہر نکال کھڑا کیا۔ حیرت انگیز طور پر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ جب شاپنگ مال میں آگ لگی تھی۔ اس وقت آگ بجھانے کے آلات وہاں موجود نہیں تھے۔

لیکن تحقیقاتی ٹیم کے پہنچنے سے قبل جائے وقوعہ پر آگ بجھانے کے آلات رکھے ہوئے تھے۔ جنہیں دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ یہ آلات اتوار کی صبح کسی وقت لا کر رکھے گئے ہیں کہ ان پر جلنے کا کوئی نشان موجود نہیں تھا۔ پولیس نے مقدمہ میں بھی آگ بھجانے کے آلات کا ذکر کیا کہ وہ وہاں موجود نہیں تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تحقیقات سے قبل ہی تفتیش خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

مقدمے کے انوسٹی گیشن افسر سب انسپکٹر شریف میو نے اپنے افسران کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ’’اس عمارت کی اجازت اگر کے ایم سی نے نہیں، کسی اور ادارے نے دی ہے تو اس کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔ ہمارا مقصد اس سانحے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرنا ہے۔ میں فائر فائٹر اور سول ڈیفنس کے اداروں کو سراہتا ہوں اور ہم ان کے کام کو قدر کے نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ تمام اداروں کا کام ہوتا ہے کہ وہ انسپیکشن کریں۔ اس طرح کے واقعات کی ایف آئی آر سرکار کی مدعیت میں ہوتی ہے۔ اگر کوئی ایک شخص مدعی ہوتا ہے اور وہ معاف کر دے تو دیگر لوگ متاثر ہوتے ہیں‘‘۔

ادھر ’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ اس سانحے میں جاں بحق ہونے والوں میں لیاقت آباد کا رہائشی شاہ زیب بھی تھا۔ جو متاثرہ شاپنگ مال میں سافٹ ویئر ہائوس چلاتا تھا اور اگلے ماہ اس کے سر پر سہرا سجنے والا تھا۔ جوان بیٹے کی موت نے ماں باپ سمیت خاندان پر قیامت ڈھا دی ہے۔ متوفی کے ورثا کہتے ہیں کہ اس شہر میں کئی سانحات ہو چکے۔ ہر سانحہ کے بعد کمیٹیاں تو بنتی ہیں۔ لیکن ذمہ داروں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا۔ اس سانحہ کو بھی چند روز بعد سب بھول جائیں گے اور پھر کسی سانحہ کا انتظار ہوگا۔ لہذا ایسے اقدامات کیے جائیں کہ دوبارہ ایسا کوئی سانحہ رونما نہ ہو‘‘۔

متوفی شاہ زیب کے ماموں تنویر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’میرا بھانجا سافٹ ویئر انجینئر تھا اور اس نے شاپنگ مال میں سافٹ وئیر ہائوس کھولا تھا۔ شاہزیب دو بھائیوں میں چھوٹا تھا۔ بڑا بھائی دبئی میں مقیم ہے۔ شاہ زیب رات کو گھر کے باہر دوستوں کے ساتھ بیڈمنٹن کھیلتا تھا۔ اس روز بھی وہ کھیل کر چار بجے کے قریب آفس جانے کیلئے نکلا تھا اور پھر اس کی میت ہی گھر پہنچی‘‘۔

ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ انہیں صبح پتہ چلا کہ شاہزیب کا جہاں آفس ہے وہاں آگ لگ گئی ہے اور زخمیوں کو اسپتال لے جایا گیا ہے۔ وہ لوگ اسپتال پہنچے۔ لیکن شاہزیب نہیں ملا۔ سرد خانے میں اس کی لاش شناخت کی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’شاہ زیب کی اگلے ماہ دسمبر میں شادی تھی۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں انصاف دیا جائے‘‘۔

دوسری جانب متاثرہ شاپنگ مال کے دکاندار کہتے ہیں کہ پہلے ہی کاروبار نہیں اور وہ مقروض بیٹھے ہیں۔ اب دکانیں نہ ہونے سے ہزاروں افراد بے روزگار ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ’’عمارت کو سیل قرار دے کر دکانیں بند کر دی گئی ہیں۔ یہ ہمارے روزگار کا مسئلہ ہے۔ ہم سارے دکاندار پریشان ہیں۔ ایک دن دکان بند ہوگی تو گھر کا چولہا بند ہوجائے گا۔ ہم درخواست کرتے ہیں کہ ہماری دکانیں کھول دیں‘‘۔ ایک سوال پر دکانداروں نے بتایا کہ ’’اللہ نے کرم کیا کہ ہمارا مال بچ گیا ہے۔ حکام بھی ہم پر رحم کریں۔ حالات بہت خراب ہیں۔ 7 سو سے زائد دکانیں ہیں۔ ہزاروں لوگ بی روزگار ہوجائیں گے۔ کاروبار نہ ہونے کے برابر ہے اور ہم پہلے سے مقروض بیٹھے ہیں‘‘۔علاوہ ازیں آتشزدگی کے ہولناک واقعے میں جاں بحق ہونے والے افراد کی نماز جنازہ اتوار کو شہر کے مختلف علاقوں میں ادا کی گئی۔