حتمی فیصلہ آصف زرداری بطور صدر کریں گے، فائل فوٹو
 حتمی فیصلہ آصف زرداری بطور صدر کریں گے، فائل فوٹو

بلاول کو آصف زرداری منانے میں کامیاب

ارشاد کھوکھر:

پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے چیئرمین آصف علی زرداری کے انٹرویو کے بعد آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے درمیان اختلافات بالآخر عوامی سطح پر بھی کھل کر سامنے آگئے۔ جس کے بعد دبئی میں ہونے والی خاندان کی بیٹھک میں آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری کو قائل کرنے میں فی الحال کامیاب ہوگئے ہیں۔

سابق صدر نے بیٹے کو سمجھایا کہ موجودہ حالات میں جارحانہ سیاست پارٹی کے لئے نقصان دہ ہوگی۔ تاہم 30 نومبر کو کوئٹہ میں پیپلز پارٹی کے یوم تایسس کی تقریب سے بلاول بھٹو زرداری کی تقریر سے اندازہ ہوگا کہ ان پر والد کی نصیحت کا کتنا اثر ہوا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ایسی کیا صورتحال پیدا ہوگئی تھی کہ آصف علی زرداری کو انٹرویو کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ ابھی تک پارٹی وہ چلارہے ہیں۔ اور تمام معاملات ان کی گرفت میں ہیں اور وزیراعظم کے امیدوار کی ابھی ٹریننگ چل رہی ہے۔

کئی تجزیہ نگار یہ محسوس کر رہے ہیں کہ یہ نوراکشتی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ باپ بیٹے کے درمیان پارٹی پالیسی کے حوالے سے عرصہ دراز سے اختلافات رہے ہیں۔ جس کی ایک مثال آصف زرداری کے منع کرنے کے باوجود بھی بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے سینئر رہنما بیرسٹر اعتزاز احسن کو پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں دعوت دینا بھی ہے۔

سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے انٹرویو میں جو باتیں کیں اس کا تذکرہ بہت ہوچکا ہے۔ جس کا لب لباب یہ تھا کہ بلاول بھٹو زرداری ابھی سیاسی حوالے سے زیر تربیت ہیں۔ لیکن الیکشن میں حصہ لینے والی جماعت پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے سربراہ ابھی بھی وہی ہیں۔ اور پارٹی ٹکٹ ملنے نہ ملنے کے حوالے سے بلاول بھٹو زرداری بھی ان کے محتاج ہیں۔ اور انہوں نے یہ تاثر جان بوجھ کر دیا کہ پارٹی پر اب بھی ان کے کنٹرول میں ہے۔

بعض حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ باپ بیٹے کے درمیان نورا کشتی چل رہی ہے۔ آصف علی زرداری اپنے بیٹے کا سیاسی قد بڑھانے کے لئے ایسی باتیں کی ہیں کہ آگے چل کے وہ پیچھے ہٹ جائیں گے اور بلاول بھٹو کو پارٹی کے امور میں پاور فل کردیں گے۔

تاہم پیپلز پارٹی کے اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ نورا کشتی نہیں حقیقت اس کے برعکس ہے۔ عرصہ دراز سے پارٹی کی پالیسی امور کے حوالے سے بیٹے اور والد کے درمیان خصوصاً اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کے متعلق پالیسی کے حوالے سے اختلافات رہے ہیں۔ جس کی واضح مثال یہ ہے کہ آصف علی زرداری بیرسٹر اعتزاز احسن کو پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دینے کے لئے تیار نہیں تھے۔ لیکن بلاول بھٹو زرداری نے والد کے منع کرنے پر بھی اعتزاز احسن کو پارٹی کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تھی ۔

اعتزاز احسن کے پارٹی کے اجلاس میں آنے کے بعد آصف علی زرداری ناراض ہوکر اس اجلاس سے چلے گئے تھے۔ مذکورہ ذرائع کا کہنا ہے کہ بیرسٹر اعتزاز احسن سے آصف علی زرداری کی اندرونی طور پر ناراضگی اس وقت شروع ہوئی تھی جب انہوں نے آصف علی زرداری کی بات ماننے سے انکار کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس چوہدری افتخار کی بحالی کے لئے لاہور سے اسلام آباد تک ریلی نکالنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ وہ احتجاجی ریلی گجرانوالہ پہنچ کر ہی ختم ہوگئی تھی۔

موجودہ حالات میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ایسی نوبت کیوں آئی کہ آصف علی زرداری کو ایسی باتیں کرنا پڑیں۔ ذرائع نے بتایا کہ بلاول بھٹو زرداری کی یہ سوچ ہے کہ جس طرح پہلے پیپلز پارٹی کی پہچان اینٹی اسٹیبلشمنٹ تھی، جس کے ختم ہونے سے پارٹی کو نقصان ہوا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایک بار پھر وہی پالیسی اپنائی جائے جس کے تحت انہوں نے اپنی تقاریر اور بیانات میں جارحانہ پالیسی اختیار کی تھی۔ اور وہ دیگر جماعتوں کے سربراہان کو بھی جن الفاظ میں للکار رہے تھے۔ اس سے مقتدر حلقوں میں بھی تشویش پائی جاتی تھی۔ جس کے بعد راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی ایک اہم شخصیت نے کراچی میں آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کرکے یہ پیغام دیا تھا کہ سیاسی تقاریر اور بیانات میں جو زبان استعمال کی جارہی ہے ، موجودہ حالات میں ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ ملاقات میں بھی بلاول بھٹو زرداری اپنی جارحانہ پالیسی سے ہٹنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ تاہم مذکورہ شخصیت کو آصف علی زرداری کی جانب سے یہ یقین دہانی کرادی گئی کہ وہ معاملات کو سنبھال لیں گے اور بلاول کو سمجھائیں گے۔ لیکن سمجھانے کے باوجود بلاول بھٹو نے اپنی جارحانہ پالیسی جاری رکھی ۔ اس سے آصف علی زرداری نے یہ بات بھانپ لی کہ اسٹیلبشمنٹ سے معاملات اب زیادہ الجھ جائیں گے۔ جس کے بعد انہوں نے ایک چینل پر آکر انٹرویو کے ذریعے عوام کے سامنے ایسی باتیں کرنے پر مجبور ہوئے جس سے وہ مقتدر حلقوں کو یہ پیغام دینے میں کامیاب ہوئے کہ وہ کمٹمنٹ کے پکے ہیں۔ اوراس کے بعد تین چار روز قبل پیپلز پارٹی کی جانب سے مختلف جماعتوں و شخصیات سے انتخابات کے حوالے سے رابطے کرنے کے لیے قائم کردہ کمیٹیوں کا جو نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔ وہ بھی بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان نے نہیں، بلکہ آصف علی زرداری کی پولیٹیکل سیکریٹری رخسانہ بنگش نے جاری کیا ہے۔ جس سے یہ تاثر بھی عام ہوتا ہے کہ آصف علی زرداری نے عملی طور پر پارٹی کی کمان اپنے ہاتھ رکھی ہے۔

مذکورہ ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ بات حقیقت ہے کہ آصف علی زرداری نے انٹرویو میں خصوصاً بلاول بھٹو کے متعلق جو باتیں کیں وہ باتیں بلاول بھٹو کو ناگوار لگیں۔ اور وہ ناراض ہوکر ہی دبئی چلے گئے تھے۔ یہ اور بات تھی کہ دبئی میں ان کی خالہ صنم بھٹو کو بھی آنا تھا۔ جس کے بعد آصف علی زرداری بھی دبئی پہنچ گئے۔ اور خاندان کی بیٹھک میں انہوں نے اپنے بیٹے کو سمجھایا کہ انہوں نے سیاست میں بڑے نشیب و فراز دیکھے ہیں ۔ اس کا تجربہ انہیں (بلاول بھٹو کو) نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو سمجھایا کہ ملک کی سیاست میں بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اور مل جل کر چلنا ضروری ہے۔ اور وہ اپنے بیٹے کے لئے فکر مند بھی ہیں کہ وہ ابھی گرم ہوا سہہ نہیں سکیں گے۔ اس لئے موجودہ صورتحال میں اسٹیبلشمنٹ کی ناراضگی سے پارٹی کو نقصان ہوگا۔

پیپلز پارٹی کے اعلیٰ سطح کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ دبئی میں ہونے والی خاندانی بیٹھک کے بعد آصف علی زرداری اپنے بیٹے کو سیاسی جارحانہ پالیسی ترک کرنے میں فی الحال کامیاب ہوگئے ہیں۔ اور بلاول بھٹو زرداری 30 نومبر کو کوئٹہ میں پیپلز پارٹی کے یوم تاتیس کی مرکزی تقریب میں ناصرف شرکت کریں گے بلکہ خطاب بھی کریں گے۔ مذکورہ تقریب میں بلاول کی تقریر سے اس بات کا اندازہ بخوبی ہوجائے گا کہ ان پر والد کی نصیحت کا کتنا اثر ہوا ہے۔