پی ٹی آئی نے 4 مارچ کو الیکشن کمیشن میں انٹرا پارٹی الیکشن کی تفصیلات جمع کرائی تھیں، فائل فوٹو
پی ٹی آئی نے 4 مارچ کو الیکشن کمیشن میں انٹرا پارٹی الیکشن کی تفصیلات جمع کرائی تھیں، فائل فوٹو

تحریک انصاف 6 برس پہلے ’’بلے‘‘ سے محروم ہوگئی تھی

علی جبران :
تحریک انصاف کے اب تک کے تمام انٹرا پارٹی الیکشن متنازعہ رہے ہیں۔ اس تناظر میں دو دسمبر کو اعلان کردہ پارٹی انتخابات بھی اسی انجام سے دوچار ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جس طریقہ کار کے تحت پی ٹی آئی یہ الیکشن کرانے جارہی ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے یہ خارج از امکان نہیں کہ الیکشن کمیشن پاکستان اس انٹرا پارٹی الیکشن کو مسترد کر دے۔

یوں عمران خان کی چیئرمین شپ سے دست برداری کے باوجود پی ٹی آئی کو اپنے انتخابی نشان بلے سے محروم ہونا پڑسکتا ہے۔ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کرانے میں کیا قانونی و آئینی سقم دکھائی دے رہا ہے۔ اس کی تفصیل آگے چل کر بیان کرتے ہیں۔ یہ بھی بتاتے چلیں کہ یہ پہلی بار نہیں کہ انٹرا پارٹی الیکشن کرانے سے راہ فرار پر پی ٹی آئی کا انتخابی نشان خطرے میں پڑا۔ چھ برس پہلے بھی بروقت پارٹی الیکشن نہ کرانے پر اسے ’’بلے‘‘ کا نشان استعمال کرنے سے روک دیا گیا تھا۔

پولیٹیکل پارٹیز آرڈر دوہزار دو کے تحت ہر چار سال بعد انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد کرانا سیاسی پارٹیوں کیلئے ضروری ہے۔ تاکہ پارٹیوں کے اندر جمہوریت پروان چڑھ سکے اور نچلی سطح سے بھی قیادت ابھرے۔ عمران خان نے یہ نعرہ لگایا تھا کہ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے بر عکس تحریک انصاف ایک مکمل جمہوری پارٹی ہے۔ جس میں کارکنان شفاف طریقے سے بذریعہ ووٹ اپنی قیادت کو منتخب کر سکتے ہیں۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔

مارچ دو ہزار تیرہ میں پی ٹی آئی کے پہلے انٹرا پارٹی الیکشن میں وہ نوٹ چلے اور دھاندلی ہوئی کہ الاماں۔ اس کی تحقیقات کیلئے خود عمران خان کے مقرر کردہ الیکشن ٹربیونل کے سربراہ جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد کی چشم کشا رپورٹ موجود ہے۔ انہوں نے انٹرا پارٹی الیکشن میں دھاندلی، فنڈز کے ناجائز استعمال اور گروپ بندی کی نشاندہی کرتے ہوئے کئی اہم رہنماؤں کو پارٹی سے فارغ کرنے کی سفارش کی تھی۔ تاہم اس کے نتیجے میں ایمانداری کی شہرت رکھنے والے سپریم کورٹ کے سابق جج وجیہ الدین احمد کو خود پارٹی سے نکلنا پڑگیا تھا۔

پی ٹی آئی کے ایک سابق عہدیدار کے مطابق جسٹس وجیہ کی رپورٹ سے بڑھ کر دھاندلی اور پیسہ چلا تھا۔ وہ اس طرح کے کئی واقعات کا عینی شاہد ہے کہ کس طرح ووٹ خرید ے گئے۔ اسے وہ دن یاد ہے کہ صوبائی صدارت کا ایک امیدوار اپنی کار کی ڈکی میں روپے بھر کر کھڑا تھا۔ ووٹ ڈالنے والا پہلے اس سے مل کر اندر جاتا تھا۔ اسی طرح ایک اور اہم صوبائی عہدے کے امیدوار نے ہوٹل میں ووٹروں کو نوازنے کا انتظام کر رکھا تھا۔
جسٹس وجیہ کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد بدنامی ہوئی تو عمران خان نے اعلان کیا کہ دوبارہ انٹرا پارٹی الیکشن کرائے جائیں گے۔

اس بار ایک اور نیک نام سابق بیورو کریٹ تسنیم نورانی کو پارٹی کا نیا چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا۔ لیکن جب تسنیم نورانی نے انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے اقدامات کا آغاز کیا تو عمران خان سے ان کے اختلافات شروع ہوگئے۔ تسنیم نورانی کا مؤقف تھا کہ پارٹی کا ہر عہدیدار ووٹوں سے منتخب ہونا چاہیے اور پارٹی کو ’’حقیقی انٹرا پارٹی‘‘ کی طرف جانا چاہیے۔

انہوں نے عہدیداروں کی نامزدگی کو ایک غیر جمہوری طریقہ قرار دیا۔ جبکہ عمران خان کا اصرار تھا کہ ’’ہر سطح پر صرف ایک نشست کا انتخاب ہونا چاہیے اور باقی عہدیداروں کو نامزد کیا جانا چاہیے‘‘۔ اس ایشو پر ڈیڈلاک بڑھتا گیا۔ اس دوران تسنیم نورانی نے ووٹر لسٹوں کی چھان پھٹک کا کام بھی شروع کر دیا۔ اس وقت کے ایک پی ٹی آئی عہدیدار بتاتے ہیں ’’تسنیم نورانی کی سربراہی میں پارٹی کے الیکش کمیشن نے شفاف الیکشن کرانے کا طریقہ کار طے کرنا شروع کیا اور ووٹر لسٹوں کو چیک کیا تو 80 فیصد ووٹر جعلی نکلے۔ یوں تنازعہ مزید بڑھ گیا‘‘۔

دوسری جانب انٹرا پارٹی الیکشن تاخیر کا شکار ہوتے رہے۔ آخر کار تسنیم نورانی نے تنگ آکر مارچ دو ہزار سولہ کو استعفیٰ دیدیا۔ نہ صرف پارٹی کے چیف الیکشن کمشنر تسنیم نورانی بلکہ مرکزی الیکشن کمیشن کے تمام عہدیداران سمیت پنجاب اور سندھ کے ارکان بھی احتجاجاً مستعفی ہوگئے۔

یہ رکاوٹ دور ہونے کے بعد پی ٹی آئی نے ایک تابعدار قائمقام چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا۔ لیکن عمران خان پھر بھی انٹرا پارٹی الیکشن سے راہ فرار اختیار کرتے رہے۔ یوں دو ہزار سترہ آگیا۔ تب الیکشن کمیشن پاکستان نے اس تاخیر کا نوٹس لیا اور مارچ دو ہزار سترہ میں پی ٹی آئی کو مستقبل میں کسی بھی انتخابات میں اپنا انتخابی نشان ’’بلا‘‘ استعمال کرنے سے روک دیا۔ کیونکہ پارٹی وقت پر انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں ناکام رہی تھی۔ یعنی یہ پہلی بار نہیں ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن سے راہ فرار پر پی ٹی آئی کو اپنے انتخابی نشان ’’بلے‘‘ سے محروم ہونے کا خطرہ لاحق ہوا۔ چھ برس پہلے بھی اسے اپنا انتخابی نشان استعمال کرنے سے روک دیا گیا تھا۔

لیکن فرق یہ ہے کہ اس وقت ہوا تحریک انصاف کے حق میں چل رہی تھی۔ چنانچہ اسے موقع دیا گیا۔ آخرکار گیارہ جون دو ہزار سترہ کو پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن کرادیئے۔ تاہم اس سے قبل عمران خان کی ہدایت پر پارٹی آئین میں تبدیلی کی گئی۔ جس کے تحت آن لائن پارٹی الیکشن کرائے گئے۔ تب پی ٹی آئی نے اپنے رجسٹرڈ ممبرز کی تعداد چوبیس لاکھ اکسٹھ ہزار چارسو نوے ظاہر کی تھی۔ ووٹرز کو پارٹی عہدیدار کے چناؤ کیلئے بذریعہ ایس ایم ایس ووٹ ڈالنے کی سہولت دی گئی۔ اللہ جانے کتنے ووٹ اصلی ڈالے گئے اور کتنے جعلی تھے۔ چونکہ پی ٹی آئی کو دو ہزار اٹھارہ کا الیکشن جتانے کا پرو جیکٹ تیار تھا۔ چنانچہ ان الیکشن کے نتائج کو تسلیم کر لیا گیا اور پی ٹی آئی کو اپنا انتخابی نشان ’’بلا‘‘ استعمال کرنے کی اجازت بھی مل گئی۔

اب تحریک انصاف کے حالیہ انٹرا پارٹی الیکشن کا ذکر ہوجائے۔ ان پارٹی الیکشن کو لے کر پی ٹی آئی یہ دہائی دیتی دکھائی دیتی ہے کہ الیکشن کمیشن پاکستان نے محض بیس روز میں انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا حکم دے کر بہت بڑی زیادتی کی ہے اور یہ کہ اس کا مقصد پارٹی کو اس کے انتخابی نشان ’’بلے‘‘ سے محروم کرنا ہے۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر بیرسٹر علی ظفر اور ان کے ہمنوا یہ کہتے ہوئے نہیں تھک رہے کہ ’’الیکشن کمیشن نے ایک غیر قانونی و غیر آئینی حکم دیا‘‘۔ لیکن وہ پورا سچ بتانے سے گریزاں ہیں۔ یہی اس کہانی کا اصل المیہ ہے کہ نوبیاہتا بیوائوں جیسے اس بین میں قانون کو پوری طرح سمجھنے والے انصافی وکلا بھی شامل ہیں۔

عوام کو ریلیف دینے کے دعوئوں، مدینہ کی ریاست کے قیام اور فارن فنڈنگ سے لے کر سائفر اسکینڈل تک تحریک انصاف نے اب تک جھوٹے بیانیے کے جو بے مثال ریکارڈ قائم کئے ہیں۔ انٹرا پارٹی الیکشن کو لے کر رونا پیٹنا بھی اسی کا تسلسل ہے۔

اصل کہانی یوں ہے کہ تسنیم نورانی کے مستعفی ہونے کے بعد دو ہزار سترہ میں پی ٹی آئی نے قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کی زیر نگرانی انٹرا پارٹی الیکشن کراکے تمام پارٹی عہدیداران چار سال کیلئے منتخب کرائے تھے۔ جن کی چار سالہ مدت تیرہ جون دو ہزار اکیس کو ختم ہوگئی تھی۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے۔ الیکشن کمیشن کی یاد دہانیوں کے باوجود پچھلے قریباً ڈھائی برس سے پی ٹی آئی لارا لپا دیتی آرہی تھی۔

پہلے کہا گیا کہ کورونا کی وجہ سے پارٹی الیکشن کرانے سے قاصر ہے۔ لہٰذا اسے ایک برس کی مہلت دی جائے۔ چونکہ اس وقت عمران خان وزیراعظم تھے اور پی ٹی آئی کی گڈی چڑھی ہوئی تھی۔ چنانچہ اسے یہ مہلت دیدی گئی۔ یوں پورے ایک برس تک پی ٹی آئی غیرقانونی قیادت کے ذریعے چلائی جاتی رہی۔ تاہم یہ ایک سالہ مہلت پوری ہوجانے پر بھی تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی الیکشن سے راہ فرار اختیار کیے رکھی۔

آخرکار الیکشن کمیشن کے شوکاز نوٹس پر پچھلے برس جون میں تحریک انصاف نے نام نہاد پارٹی الیکشن کراکے ’’منتخب‘‘ ارکان کی فہرست الیکشن کمیشن پاکستان میں جمع کرادی۔ اس کیس کی پانچ سماعتیں ہوئیں۔ جس میں پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر گوہر علی خان تھے۔ جنہیں پی ٹی آئی کا نیا چیئرمین منتخب کیا گیا ہے

رواں برس ستمبر میں الیکشن کمیشن پاکستان نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جو جمعرات تئیس نومبر کو سنایا گیا۔ جس میں تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس حوالے سے جو رپورٹ یا فہرست کمیشن میں جمع کرائی گئی۔ وہ تنازعات اور شکوک و شبہات سے بھرپور تھی اور اگر پی ٹی آئی بیس روز میں انتخابات نہیں کراتی تو وہ اپنے انتخابی نشان بلے سے محروم ہوجائے گی۔

اس سخت وارننگ پر گھبراکر اب تحریک انصاف نے دو دسمبر کو انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ جو انٹرا پارٹی الیکشن پی ٹی آئی پچھلے ڈھائی برس میں نہ کرا سکی۔ وہ اتنے مختصر وقت میں کیسے کرالے گی؟ پی ٹی آئی کے ایک سابق عہدیدار کے بقول انٹرا پارٹی الیکشن کا ایک طویل عمل ہوتا ہے جو گراس روٹ لیول شروع ہوتا ہے۔ پہلے یو سی، اضلاع اور ریجن کی سطح کا الیکٹورل کالج بنتا ہے۔

ریجن کے عہدیداروں کا انتخاب ہوجاتا ہے تو پھر وہ صوبائی قیادت کو منتخب کرتے ہیں۔ بعد ازاں صوبائی قیادت کا الیکٹورل کالج، مرکز کے عہدیداروں کا انتخاب کرتا ہے۔ دو دسمبر کو انٹراپارٹی الیکشن کرانے کا اعلان کرنے والی پی ٹی آئی نے تاحال متذکرہ الیکٹورل کالجز نہیں بنائے۔ نہ ریجن اور صوبوں میں الیکشن ہوئے ہیں، نہ ہی اب تک پینلز کا اعلان کیا گیا ہے۔

دیکھنا ہے کہ اس مختصر وقت میں کس طریقہ کار کے ذریعے پی ٹی آئی یہ الیکشن کراکے نئے چیئرمین سمیت دیگر مرکزی عہدیداران کا انتخاب کرتی ہے۔ ملین ڈالر کا سوال ہے کہ کیا اس نوعیت کے انٹراپارٹی الیکشن کو الیکشن کمیشن پاکستان تسلیم کرلے گا؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ ایک موجودہ پارٹی چیئرمین عمران خان نے دوسرے چیئرمین کو نامزد کردیا تو شفاف عمل کیسے کہلائے گا جس میں ووٹر کا حق چھین لیا گیا ہے۔ قانونی اور آئینی طریقہ یہ ہے کہ بیرسٹر گوہر چیئرمین کے امیدوار کے طور پر خود اپنے کاغذات نامزدگی داخل کرتے۔ اس کی اسکروٹنی ہوتی۔ اہل ہونے کی صورت میں ووٹنگ ہوتی ہے۔ صوبوں میں منتخب ہونے والے عہدیدار چیئرمین کو اپنے ووٹوں کے ذریعے سلیکٹ کرتے۔