اسکینڈل کُھلنے پر کسٹمز حکام نے اسکروٹنی سخت کردی، فائل فوٹو
 اسکینڈل کُھلنے پر کسٹمز حکام نے اسکروٹنی سخت کردی، فائل فوٹو

خیراتی اشیا کی آڑ میں سامانِ تعیش منگوانے کا انکشاف

عمران خان:
ملک کی فلاحی تنظیموں اور نادار شہریوں کے نام بیرون ملک سے آنے والے کروڑوں کے ُپرتعیش سامان کی مقامی مارکیٹوں میں فروخت کا انکشاف ہونے پر کسٹمز حکام کی جانب سے مانیٹرنگ شروع کردی گئی ہے۔

فلاحی تنظیموں کے نام پر بیرون ملک سے منگوائے جانے والے سامان کی کلیئرنس کے لئے دستاویزات کی اسکروٹنی اور چھان بین کا عمل مزید سخت کردیا گیا ہے۔ اب تک کئی واقعات میں اربوں روپے کا سامان منگوایا جاچکا ہے۔

’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق فلاحی اور رفاہی تنظیموں کی جانب سے اشیائے خورونوش،قیمتی کپڑے ،جوتے ،الیکٹرونک آئٹم اور کاسٹمیٹکس غریب شہریوں میں مفت تقسیم کرنے کے نام پر درآمد کرکے قومی خزانے کوکسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس کی مد میں اربوں روپے نقصان پہنچائے جانے کے سلسلے کو روکنے کے لئے کسٹم حکام نے خصوصی اقدمات شروع کردئے ہیں۔

کسٹم حکام کی جانب سے فلاحی تنظیموں کی جانب سے منگوائے جانے والے سامان کی کلیئرنس کے لئے صرف ان کی جانب سے پیش کئے جانے والے سرٹیفکیٹ اور انوائسز دیکھ کر ہی چھوڑے جاتے رہے ہیں۔ تاہم حالیہ عرصہ میں کسٹم حکام کو معلوم ہوا ہے کہ اس دھندے میں ایک مافیا پنپ چکی ہے جو فلاحی تنظیموں اور اداروں کے نام پر سامان منگوا کر اس پر ڈیوٹی اور ٹیکس بچانے چوری کرنے کے لئے جعلی دستاویزات بنواتی ہے اور بعد ازاں یہ سامان مقامی مارکیٹوں کو فروخت کردیا جاتا ہے ۔

گزشتہ دنوں ایک بڑے اسپتال کی این جی او کے نام پر بیرون ملک سے درآمد اربوں روپے کے سامان میں بھاری ٹیکس چوری میں سہولت کاری دینے والے اسلام آباد ایئر پورٹ کے کسٹمز افسران کو تحقیقات میں جرم ثابت ہونے پر ملازمت سے برطرف کیا گیا۔ دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ اسکینڈل اس وقت سامنے آیا تھا جب ڈائریکٹوریٹ جنرل کسٹمز انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کی ٹیم کی جانب سے اطلاع پر اسلام آباد ایئر پورٹ پر خفیہ اطلاع پر چھاپہ مار کارروائی کی گئی تھی۔

معلوم ہوا تھا کہ کسٹمز کے افسران کی ملی بھگت سے فلاحی ادارے کے نام پر لگژری سامان بغیر ڈیوٹی اور ٹیکس کے کلیئر کیا جا رہا ہے۔ جس پر اس وقت وہاں پر موجود سامان کی کھیپ اور اس کی کلیئرنس کے لئے جمع کروائی جانے والی گڈز ڈکلریشن کی دستاویزات کی چھان بین کرکے کیس بنایا گیا۔ اسی کیس پر ایف بی آر ہیڈ کوارٹر کی ہدایات پر اس وقت کے کلکٹر اسلام آباد رضوان ثلابت، ایڈیشنل کلکٹر اور ڈپٹی کلکٹر اسلام آباد ایئر پورٹ ہیڈ کوارٹرز فرحین زہرا کے ماتحت محکمہ جاری انکوائری کمیٹی بنائی گئی۔

انکوائری میں معلوم ہوا کہ مذکورہ ایک کھیپ کے علاوہ کراچی کی این جی اوکے نام پر فلاحی مقاصد کے لئے 2019ء اور 2020ء کے دوران کے مہینوں میں 80 سے زائد سامان کی کھیپیں ہیلی کاپٹر کے پرزوں کی آڑ میں نکالی گئیں۔ ان تمام کھیپوں میں لگژری سامان نکالا گیا جس پر تقریباً 7 ارب روپے مالیت کے ڈیوٹی اور ٹیکس چوری کئے گئے۔ تاہم اس ادارے نے اپنی دستاویزات استعمال کئے جانے کا جواز بنا کر خود کو بچا لیا تھا۔

اس سے قبل ایک کارروائی میں ماڈل کسٹمز کلکٹریٹ سے خیراتی ادارے کی آڑ میں دودھ کے کنسائمنٹ کو ڈیوٹی وٹیکسزکی ادائیگی کے بغیرکلیئرکرنے کی کوشش کئے جانے کی اطلاعات پر اس کھیپ چھان بین شروع کی گئی، جس میں انکشاف ہوا کہ بیلجیم سے مذکورہ این جی او کروڑوں روپے مالیت کا 50 ہزار کلو گرام ڈبہ پیک اعلیٰ کوالٹی کا دودھ صفر فیصد ڈیوٹی اور ٹیکس پر کلیئر کروا رہی تھی جس پر اس کھیپ کی کلیئرنس کو روک کر ضبط کرلیا گیا۔ کیونکہ دستاویزات کی جانچ پڑتال میں معلوم ہوا کہ مذکورہ فلاحی ادارے کی انتظامیہ جعلی انوائس اوروفاقی ادارے کی جعلی این او سی استعمال کر رہی تھی۔ جبکہ اس دودھ کو مقامی مارکیٹ میں فروخت کیاجانا تھا۔

کسٹمز حکام کی رپورٹ کے مطابق خصوصی رعایتی مکتوب جو صرف اسپتال اور رفاہی ادارے کو گفٹ یا عطیہ کی جانے والے اشیا کے لئے استعمال کیاجاتاہے اور مذکورہ سرٹیفکیٹ کے تحت رفاہی ادارے یا اسپتال درآمدی سامان پر ڈیوٹی وٹیکسزسے مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ اس کیس میں دھوکہ دہی سے کروڑوں روپے مالیت کے ڈیوٹی اور ٹیکس چوری کئے جا رہے تھے۔

ماڈل کسٹمزکلکٹریٹ اپریزمنٹ ایسٹ کی جانب سے تحقیقات کے دوران بیلجیم میں قائم سامان بھجوانے والی کمپنی سے درآمدکئے جانے والے دودھ سے متعلق دریافت کیاگیا جس سے انکشاف ہواکہ دودھ کا کنسائمنٹ عطیہ نہیں کیاگیا۔ بلکہ این جی او کی جانب سے خرید کر درآمدکیا گیا۔ یوں اس معاملے میں حوالہ ہنڈی اور منی لانڈرنگ کا پہلو بھی سامنے آیا کیونکہ اس سامان کی ادائیگی غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک منتقل کی گئی تھی۔

ایسی ہی ایک کارروائی میں ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ ایسٹ کے ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ ( آر اینڈ ڈی ) کے کسٹم حکام نے معمر افراد کے لئے اولڈ ہائوس چلانے والے والی این جی او کے نام پر منگوائے گئے کروڑون روپے مالیت کے سامان کے 4 کنٹینرضبط کئے۔اس معاملے کی مزید چھان بین کی گئی تو انکشاف ہوا کہ اس این جی او کے کرنا دھرتا طویل عرصہ سے فلاح و بہبود کے نام پر مختلف قسم کا سامان بشمول فرنیچر، الیکٹرونک آئٹم، پرفیوم اور دیگر کاسسمیٹکس ،جوتے ،کپڑے وغیرہ منگوا کر اس سامان کو کمرشل استعمال کے لئے فروخت کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔

تحقیقات میں مزید معلوم ہوا کہ کراچی کی بندرگاہوں کے مختلف ٹرمینل سے گزشتہ عرصہ کے دوران مذکورہ این جی او کی جانب سے سامان سے بھرے 100سے زائد کنٹینرز کی 35 کنسائنمنٹس منگوائی گئیں۔ کسٹم افسر کے بقول جب تحقیقات میں این جی او کی انتظامیہ سے پوچھا گیا کہ کروڑوں روپے مالیت کا سامان منگواکر انہوں نے کہاں استعمال کیا؟ تو انتظامیہ نے کوئی مکمل ریکارڈ پیش کرنے کے بجائے صرف اتنا بتایا کہ ان کے پاس موجود لاوارث افراد کے اوپر یہ سامان استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم جب کسٹم حکام نے دبئی میں موجود اس کمپنی کے حوالے سے معلومات حاسل کیں جہاں سے یہ سامان منگوایا جا رہا تھا تو معلوم ہوا کہ مذکورہ کمپنی کا تاجر کمرشل بنیادوں پر کام کرتا ہے اور وہ این جی کے نام پر بھجوایا جانے والا یہ سامان بھی کمرشل ریٹوں پر بھجوارہا تھا ۔

کسٹم ذرائع کے بقول این جی اوز کو کسٹم ایکٹ اور وزارت صنعت وتجارت کے تحت فلاحی بنیادوں پر منگوائے گئے ہرقسم کے سامان پر کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس کی مد میں 100فیصد اور بعض سامان پر 50 سے 80 فیصد تک رعایت حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے اکثر ایسے اسکینڈل سامنے آتے رہتے ہیں جن میں نام نہاد اور جعلی این جی اوز کے ناموں پر گاڑیاں اور سامان منگوا کر اسے ملک میں تجارتی اور کمرشل بنیادوں پر استعمال کرکے کروڑوں روپے کا ناجائز منافع کمایا جاتا ہے۔

کچھ عرصہ قبل بھی ایسا ہی ایک اسکینڈل سامنے آیا تھا جس میں کراچی ایئر پورٹ پر تعینات کسٹم افسران کی ملی بھگت سے ایک این جی کے نام پر ادویات کی کلیئرنس کے ذریعے قومی خزانے کو کروڑوں روپے کانقصان پہنچا نے کا انکشاف ہوا تھا ۔ کراچی ایئر پورٹ کلکٹوریٹ کے ایئر فریٹ یونٹ سے این جی اوز کے نام پر بڑی مقدار میں ادویات اور انجکشن طویل عرصہ سے کلیئرکئے جارہے تھے۔ جس پر کسٹم حکام نے تحقیقات کا حکم دیااورجب ایک کنسائنمنٹ روک کرچھان بین کی گئی۔

مذکورہ این جی او کادستاویزات میں درج پتہ ہی جعلی نکلا تاہم این جی اوکی طرف سے کہاگیاکہ یہ ادویات اور انجکشنزبرطانیہ میں قائم این جی اوکی جانب سے غریب اور بے سہارا افرادکیلئے فراہم کی جاتی ہیں۔ اس پر کسٹمز حکام نے برطانیہ میں پاکستانی کمرشل قونصلر سے معلوم کیاگیا توانکشاف ہواکہ ہیلتھ اینڈ سوشل ویلفیئرنے برطانیہ میں جوپتہ بتایاوہ بھی جعلی ہے۔جبکہ برطانوی ادارے نے بھی ایسی اشیاء کی سپلائی سے لاعلمی کا اظہار کردیا تھا۔