فائر بریگیڈ ایک گھنٹے تاخیر سے پہنچی

محمد نعمان اشرف :

فائر بریگیڈ کی لاپروائی سے ایک اور بڑا حادثہ شہر میں رونما ہوگیا ہے۔ آگ کی بروقت اطلاع ملنے کے باوجود فائر بریگیڈ کی گاڑیاں تاخیر سے پہنچیں۔ جس کے باعث آگ نے پوری عمارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ تاہم دکانداروں کے الزام پر بلدیہ عظمیٰ کراچی کا کہنا ہے کہ یہ کہنا درست نہیں۔ محکمہ فائر بریگیڈ کی گاڑیاں کچھ منٹوں بعد ہی متاثرہ مقام پر پہنچ گئی تھیں۔

اس حادثے میں 3 افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں۔ عرشی شاپنگ سینٹر میں 200 سے زائد دکانیں ہیں۔ جن میں کاسمیٹک، بچوں اور میٹرس (گدے) کی دکانیں زیادہ ہیں۔ ایک دکان میں آگ لگنے کی اطلاع موصول ہوئی۔ جس کے بعد مارکیٹ کے دکاندار دکانیں چھوڑ کر مارکیٹ سے باہر آگئے۔ دکانداروں نے آگ کی اطلاع فائر بریگیڈ کو دی۔ تاہم فائر بریگیڈ تاخیر سے پہنچی۔ جس کے باعث عرشی شاپنگ سینٹر میں قائم دکانیں مکمل طور پر جل کر خاکستر ہوگئیں۔

آگ بجھانے کیلئے محکمہ فائر بریگیڈ، ریسکیو 1122 اور نیوی کی مدد لی گئی۔ تادم تحریر آگ پر تو کافی حد تک قابو پالیا گیا ہے۔ لیکن عمارت مکمل طور پر خستہ ہوگئی اور کسی بھی وقت گر کر حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔ عمارت کے اطراف اعلانات کیے جارہے ہیں کہ شہری عمارت سے دور رہیں۔ جبکہ عمارت پر لگے چھوٹے بڑے سائن بورڈ کا لوہا جل کر نیچے گرنا شروع ہوگیا ہے۔ عرشی شاپنگ سینٹر کے اوپر 350 سے زائد فلیٹس بھی ہیں۔ جہاں آگ کی اطلاع موصول ہوتے ہی بھگڈر مچ گئی۔ جس کے باعث کئی رہائشی بھی زخمی ہوئے۔ جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔

بلڈنگ میں دھواں بھر جانے پر مکینوں نے کھڑکیوں سے دیکھا کہ نیچے آگ لگی ہوئی ہے۔ جس پر وہ پریشان ہوگئے اور مدد کیلئے کھڑکیوں سے چیخ و پکار کرتے رہے۔ اطراف کی عمارتوں میں رہائش پذیر مکین انہیں کھڑے تسلی دیتے دکھائی دیئے کہ وہ پریشان نہ ہوں۔ فائر بریگیڈ کو اطلاع کردی گئی ہے۔ تاہم آگ کی شدت بڑھ جانے پر مکین اپنی مدد آپ کے تحت اپنے فلیٹوں سے نکتے رہے۔ ’’امت‘‘ کا فوٹوگرافر اور نمائندہ جائے وقوعہ پر پہنچا تو اس وقت سورج کی روشنی موجود تھی اور آگ عرشی شاپنگ سینٹر کے گراؤنڈ پر موجود بیشتر دکانوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر تیزی سے دیگر دکانوں کو لپیٹ میں لے رہی تھی۔

فضا میں شعلے اور دھویں کے گہرے بادل تھے۔ کچھ منٹ میں آگ فرسٹ فلور کے رہائشی فلیٹوں تک پہنچ چکی تھی۔ جبکہ پارکنگ میں کھڑی درجنوں موٹر سائیکلیں بھی آگ کی لپیٹ میں آکر جل رہی تھیں۔ آگ لگنے کے تقریباً ایک گھنٹے بعد فائر بریگیڈ کی گاڑیاں جائے وقوعہ پر پہنچیں۔ تب تک آگ دکانوں سمیت فرسٹ فلور کے رہائشی فلیٹوں کو لپیٹ میں لے چکی تھی۔ متعدد مکین جان بچانے کیلئے عمارت کی چھت پر چڑھ گئے تھے۔

اس موقع پر کئی جذباتی مناظر بھی دیکھنے میں آئے۔ غمزدہ دکاندار باہر کھڑے بے بسی سے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی راکھ ہوتے دیکھ رہے تھے۔ ان میں سے متعدد دکاندار دھاڑیں مار کرروتے رہے۔ بہت سے ایسے تھے جو اپنی مدد آپ کے تحت آگ پھیلنے سے قبل کچھ سامان نکالنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ دکانداروں کے مطابق آگ لگنے کے فوری بعد ہی فائر بریگیڈ کو اطلاع دے دی گئی تھی۔ لیکن ایک گھنٹہ گزرجانے کے بعد بھی فائر بریگیڈ عرشی شاپنگ سینٹر نہیں پہنچی۔

جبکہ کچھ دور ہی محکمہ فائر بریگیڈ کا اسٹیشن موجود ہے۔ دکانداروں نے بتایا کہ شاپنگ سینٹر میں داخل ہونے کے 4 راستے ہیں۔ آگ مارکیٹ کی ایک دکان میں لگی تھی۔ جو شاید گدے کی دکان تھی۔ تاہم شاپنگ سینٹر میں کسی قسم کے انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے آگ نے شدت اختیار کرلی۔ دکانداروں کے بقول عرشی شاپنگ سینٹر میں آگ بجھانے کا ایک بھی سامان موجود نہیں۔ جس کی وجہ سے دکاندار مجبوراً اپنی جان بچانے کیلئے باہر کی طرف بھاگے۔

’’امت‘‘ نے متاثرہ دکاندار اویس سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ آگ کی اطلاع فوراً فائر بریگیڈ کو دی گئی۔ لیکن فائر بریگیڈ تاخیر سے پہنچی۔ انہوں نے کہا کہ ’’میری لیڈیز لیس کی دکان تھی اور آگ لگنے کے وقت میں شاپنگ سینٹر میں موجود تھا۔ آگ ایک دکان سے شروع ہوئی۔ جس نے پورے شاپنگ سینٹر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا‘‘۔

’’امت‘‘ نے متاثرہ مقام پر کھڑے میونسپل سروسز کے ڈائریکٹر انور بلوچ سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ 5 بج کر 41 منٹ پر آگ کا واقع ہرپورٹ ہوا۔ جس کے فور ی بعد ہی فائر بریگیڈ کی گاڑی پہنچ گئی۔ یہ کہنا درست نہیں کہ فائر بریگیڈ تاخیر سے پہنچی۔ محکمہ فائر بریگیڈ کے ہمایوں خان کا کہنا ہے کہ آگ پر قابو پالیا ہے۔ تاہم ابھی یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ آگ کیسے لگی۔

میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ کے ایم سی عملہ یہاں کام کر رہا ہے اور لوگوں کو بحفاظت یہاں سے نکالا ہے۔ کوشش کر رہے ہیں کہ آگ پر جلد قابو پالیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ دنوں آر جے مال میں بھی آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا تھا۔ جس میں 11 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ مذکورہ حادثے کے بعد بلدیہ عظمیٰ کراچی اور دیگر متعلقہ اداروں نے ہنگامی اجلاس تو کیے تھے۔ لیکن عملدرآمد ہوتا کہیں دکھائی نہیں دیا۔