غریب شہری سے ایک گردہ 2 لاکھ میں خرید کر ایک کروڑ تک میں بیچا جاتا ہے، فائل فوٹو
غریب شہری سے ایک گردہ 2 لاکھ میں خرید کر ایک کروڑ تک میں بیچا جاتا ہے، فائل فوٹو

گردوں کی غیرقانونی پیوند کاری میں ملوث ملزمان ارب پتی بن گئے

عمران خان :

گردوں کی غیر قانونی خرید و فروخت اور پیوند کاری سے منسلک نیٹ ورک کے بااثر ملزمان جہاں ایف آئی اے اور پنجاب پولیس کیلئے گزشتہ 10 برس سے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ وہیں اس غیرقانونی دھندے میں ملوث نیٹ ورک کے مرکزی کرداروں نے بیرون ملک اربوں روپے مالیت کے اثاثے بنالئے ہیں۔ بھارت اور خلیجی ممالک بشمول اردن، عراق، یمن اور ترکی سمیت دنیا کے دیگر ممالک کے ڈاکٹروں سے مل کر اب تک پاکستان کے ہزاروں شہریوں کو گردوں سے محروم کیا جا چکا ہے۔

کسی بھی غریب شہری کی بے کسی کا فائدہ اٹھا کر ایک گردہ زیادہ سے زیادہ 2 لاکھ میں حاصل کرکے 80 لاکھ سے ایک کروڑ رپے تک کمائے جاتے رہے۔ اس مذموم دھندے کا گرفتار مرکزی ملزم ڈاکٹر فواد ممتاز کو ملک میں دیگر ڈاکٹرز ڈان قرار دے رہے ہیں۔ کیونکہ پاکستان کے 11 سے زائد شہروں میں اس پر مقدمے درج ہیں۔ تاہم ایف آئی اے اور پولیس اب تک اس کو لمبی سزا دلوانے میں ناکام رہی ہے۔ جو ملک کے نظام پر بھی ایک سوالیہ نشان کی طرح ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ لاہور کی طرف سے موصول ہونے والی ایک شکایت پر گجرات اور راولپنڈی میں کاروائیاں کرتے ہوئے گردوں کی غیر قانونی خرید و فروخت اور پیوند کاری سے منسلک ایک گروپ سے منسلک تین ملزمان کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کیا گیا۔

گجرات سے ملزم ڈاکٹر نیفرالوجسٹ شہباز ملک کو حراست میں لیا گیا۔ جبکہ پرائیویٹ لیب اٹینڈنٹ ابرار حسین اور بدنام زمانہ ایجنٹ شہزاد کو راولپنڈی سے تحویل میں لیا گیا۔ جن سے مزید تفتیش جاری ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق ملزم ڈاکٹر شہباز ملک نے ایک مریض فیملی سے اس کا گردہ تبدیل کرنے کے عوض ٹوٹل 40 لاکھ روپے طلب کیے۔ جس میں سے 5 لاکھ روپے لاہور میں وصول کیے گئے۔ جبکہ 5 لاکھ روپے ٹشو ٹائپنگ ٹیسٹ ہونے کے بعد اس کے نمائندہ ایجنٹ شہزاد نے راولپنڈی میں وصول کیے۔

شہزاد ملک نفرالوجسٹ ہے۔ جو غیر قانونی طور پر گردہ ٹرانسپلانٹ کے مریض ایجنٹ شہزاد کو بھجواتا ہے۔ جبکہ آپریشن ہونے کے بعد گجرات کے مختلف پرائیوٹ اسپتالوں میں اپنی زیر نگرانی علاج کرتا ہے۔ اس کیس میں جس مریض کا علاج کیا گیا تھا۔ اسے ملزم ڈاکٹر شہباز نے ہی بھجوایا تھا۔ ملزم شہزاد بدنام زمانہ ایجنٹ ہے۔ جو اس غیر قانونی گھناونے جرم میں اہم ملزم ہے۔

ملزم مختلف کارندوں کے ذریعے غریب دیہاتی لوگوں کو ورغلا پھسلا کر ان کا گردہ نکلوانے پر راضٰ کرتا ہے اور بعد ازاں یہ گردے ملک کے اندر اور بیرون ملک مریضوں کیلئے بھاری رقوم میں فروخت کردیئے جاتے ہیں۔ ملزم ابرار حسین پرائیوٹ لیب اٹینڈنٹ ہے۔ جو ملزم شہزاد کے کہنے پر ضروری ٹیسٹ کر کے دیتا تھا اور اس کے لیے اپنا حصہ وصول کرتا تھا۔ ملزم ابرار حسین تقریبا 70 سے زائد افراد کے ٹیسٹ کر چکا ہے۔

اس کارروائی کے بعد ’’امت‘‘ کی جانب سے ایف آئی اے پنجاب کے متعدد سینئر افسران سے بات چیت کی گئی۔ جو ماضی میں بھی گردوں کی غیر قانونی پیوند کاری کی وارداتیں کرنے والے گروپوں کے خلاف کارروائیوں اور تحقیقات سے منسلک رہے ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ 2017ء سے ایف آئی اے اس دھندے میں ملوث ڈاکٹروں اور ایجنٹوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔ تاہم اب بھی یہ مکروہ دھندہ جاری ہے۔

اس کے مرکزی کردار ہر گرفتاری کے بعد آزاد ہوکر دوبارہ کام شروع کردیتے ہیں۔ جبکہ عالمی سطح پر ان کے رابطے بھی بحال ہیں۔ جس سے ملک کی بدنامی ہو رہی ہے اور غریب شہری اپنے انمول اعضاء سے محروم کئے جا رہے ہیں۔ ان سوالات کے جواب میں ایف آئی اے افسران کا کہنا تھا ’’گزشتہ 10 برسوں میں پنجاب، خیبر پختونخواہ اور گلگت کے علاوہ آزاد کشمیر میں جہاں پر بھی اس نیٹ ورک کے ملزمان گرفتار ہوئے۔ان کے تانے بانے ماسٹر مائنڈ اور مرکزی ملزم بدنام زمانہ سرجن ڈاکٹر فواد ممتاز سے ہی ملے ہیں۔ جو یا تو براہ راست ملوث رہا یا پھر اس کے سکھائے ہوئے کارندے ملوث نکلے۔

یہ گروپ 2010ء سے سرگرم ہے۔ جس کے خلاف کارروائی مارچ 2017ء میں لاہور بحریہ ٹائون کے ایک بنگلے میں کی گئی۔ جہاں ڈاکٹر فواد اور ڈاکٹر التمش گردوں کی پیوندکاری میں ملوث پائے گئے۔ ایف آئی اے، فواد ممتاز کو اس سے قبل لاہور میں اس کی رہائش گاہ پر چھاپے کے دوران بھی گرفتار کرنے میں ناکام رہی تھی۔ جس کو اپریل 2017ء میں ایف آئی اے نے گرفتار کیا تھا۔اب اس نے لاہور کی ای ایم ای سوسائٹی میں اردن، لیبیا اور عمان سے تعلق رکھنے والے شہریوں سے 60 لاکھ روپے کے عوض ان کا غیر قانونی ٹرانسپلانٹ کیا۔ بعد ازاں غیرقانونی ٹرانسپلاٹ کے دوران اردن سے تعلق رکھنے والی خاتون شہری کی موت واقع ہوگئی تھی۔

اس کے بعد جو ہولناک انکشافات سامنے آئے۔ ان کے مطابق یہ دونوں ڈاکٹر پنجاب کے مختلف شہروں کے علاوہ اسلام آباد، آزاد کشمیر، بلوچستان، خیبر پختونخواہ، سندھ اور گلگت میں بعض پوش سوسائٹیوں کے گھروں میں یہ کام کر رہے تھے اور انہوں نے اپنے گروپ میں کئی اسپتالوں کے ٹیکنیشنز، لیبارٹری کے افراد اور ڈاکٹرز شامل کر رکھے تھے۔ جبکہ انہیں ایجنٹوں کی مدد بھی حاصل تھی۔ جو مریض ان کے پاس لاتے تھے۔ اس طرح مجبور اور غریب شہریوں سے گردے خریدنے والے درجنوں کارندے ان کیلئے کام کر رہے تھے ۔ اس کی روشنی میں پہلی بار یہ اسکینڈل ملکی سطح پر اجاگر ہوا۔ جبکہ وفاقی حکومت نے بھی ایف آئی اے کو اس پر ملک گیر کارروائی کی ہدایات جاری کی۔

تاہم بعد ازاں روایتی انداز میں یہ کیس دب گیا۔ ایف آئی اے افسران کے مطابق اس کے ایک برس بعد جون 2018ء میں ایف آئی اے کی ہی ایک کارروائی میں اسی نیٹ ورک سے منسلک ڈاکٹر عزیز کا شاد مان کے علاقے میں ایک اور نجی اسپتال پکڑا گیا۔ جس میں بھارتی سرجن سبھاش گیتا کا اہم کردار بھی سامنے آیا۔ ج اپنے کلائنٹ یہاں بھیج رہا تھا۔ اس کے ساتھ اپنے مریضوں کیلئے بھی گردے اسی گروپ سے حاصل کر رہا تھا اور خود پاکستان آکر آپریشن میں حصہ لے کر اپنی خطیر رقم کا حصہ وصول کر لیتا تھا۔

اس کارروائی میں ایف آئی اے نے ایجنٹوں سمیت 4 ملزمان کو گرفتار کیا۔ جنہوں نے اعتراف کیا کہ وہ درجنوں شہریوں کو جعلی دستاویزات پر گردوں کیلئے بھارت بھیج چکے تھے۔ کارروائی میں 36 ہزار ڈالر اور کچھ پاسپورٹ قبضے میں لئے گئے۔ اس کیس میں منی لانڈرنگ، حوالہ ہنڈی اور کئی دیگر غیر قانونی الزامات تھے اور شواہد موجود ہونے کی وجہ سے مضبوط کیس بنتا تھا۔ تاہم اس کے بعد اس کا بھی وہی حال ہوا۔

اسی طرح جولائی 2020ء میں اسی نیٹ ورک کے خلاف ایک کارروائی میں ایف آئی اے اینٹی کرپشن نے پشاور میں ملزم محمد شیخ امین کو گرفتار کیا۔ یہ اپنے کارندوں کے ساتھ پشاور میں گردہ فروشی کے گھناؤنے کاروبار میں ملوث تھا۔ ملزم سے تفتیش میں انکشاف ہوا تھا کہ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ڈاکٹر اور 2 انستھیزیا ٹیکنیشن پہلے ہی گرفتار تھے۔ تاہم ڈاکٹر فواد ممتاز فرار تھا۔

فواد ممتاز اصل میں سرکاری لاہور جنرل اسپتال میں پلاسٹک سرجن تھا۔ جب اسے پہلی بار گردے کی غیرقانونی پیوندکاری کرنے پر ملازمت سے معطل کیا گیا تو اس وقت وہ اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دے رہا تھا۔ بدنام زمانہ سرجن اس دھندے سے ارب پتی بن گیا ہے۔ جبکہ دنیا بھر سے اس کے امیرکسٹمرز اور ڈاکٹر اب بھی اس سے رابطے میں ہیں۔ ڈاکٹر فواد اس وقت پنجاب پولیس کی حراست میں ہے۔ جس کو رواں برس اکتوبر میں اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ چند روز قبل اپنی گرفتاری کے دوران چار مسلح گارڈز کے ساتھ فرار ہوا تھا۔ جس کے بعد پولیس کے اہلکاروں کو بھی معطل کردیا گیا تھا۔