ایسے میں نون لیگ کیا منظم طریقے سے عام انتخابات لڑ سکے گی؟ فائل فوٹو
ایسے میں نون لیگ کیا منظم طریقے سے عام انتخابات لڑ سکے گی؟ فائل فوٹو

نون لیگ سندھ کے صدر کیخلاف پارٹی میں تحفظات برقرار

امت رپورٹ :

نون لیگ کا خیال ہے کہ وہ ماضی کے برعکس اس بار سندھ میں نمایاں کامیابی حاصل کر سکتی ہے اور یہ کہ پیپلز پارٹی مخالف اتحاد کا حصہ بننے سے ہدف آسان ہو جائے گا۔ تاہم ملین ڈالر کا سوال ہے کہ پارٹی کے نئے صوبائی صدر بشیر میمن کے خلاف جس طرح پارٹی کے اندر تحفظات پائے جاتے ہیں۔ ایسے میں نون لیگ کیا منظم طریقے سے عام انتخابات لڑ سکے گی؟ ٹھیک اس دوران سندھ میں پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے آج لاہور میں ایک اہم اجلاس ہونے جارہا ہے۔

نون لیگ سندھ کے اندرونی ذرائع نے بتایا کہ اب تک صوبائی چیپٹر کے بہت سے عہدیداران نے دل سے بشیر میمن کو بطور صوبائی صدر قبول نہیں کیا ہے۔ ان عہدیداران کو سب سے زیادہ شکایت بشیر میمن کے غیر سیاسی رویہ اور طریقہ کار سے ہے۔

واضح رہے کہ قریباً ڈھائی ماہ پہلے ایف آئی اے کے سابق سربراہ بشیر میمن نے نون لیگ جوائن کی تھی۔ بعدازاں صوبائی صدر شاہ محمد شاہ کی جگہ انہیں یہ عہدہ دے دیا گیا۔ جس پر سابق گورنر اور نون لیگ کے سینئر رہنما محمد زبیر سمیت چند دیگر نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

نون لیگ سندھ کے ایک عہدیدار کے بقول جب سینئر ترین رہنمائوں کی موجودگی میں اچانک ایک بیوروکریٹ کو صوبے کی قیادت سونپ دی جائے، جن کی پارٹی میں شمولیت بھی نئی ہو تو تحفظات تو پیدا ہوتے ہیں۔ ان تحفظات کا آغاز ان کی بطور صدر تعیناتی سے ہی ہو گیا تھا اور اب بھی یہ تحفظات برقرار ہیں۔

اس عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ ایک تو بشیر میمن بیوروکریٹ ہیں اور پھر یہ کہ پارٹی میں نئے نئے آئے ہیں۔ اس لیے پارٹی کے صوبائی ڈھانچے کی بابت انہیں زیادہ معلومات نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ صوبے میں نون لیگ کے سیاسی ڈھانچے کا کوئی ربط نہیں ہوگا۔ وہ نہیں جانتے کہ کن لوگوں سے کیا کام لینا ہے۔ ایک شخص جسے پارٹی کے کیڈرز کا نہیں پتہ، وہ کس طرح لوگوں کو ذمہ داریاں سونپے گا۔ پارٹی کے لوگوں کو سمجھنے میں انہیں تین سے چھ ماہ لگ جائیں گے۔ جبکہ عام انتخابات میں محض دو ماہ سے کم کا عرصہ باقی ہے۔ انگریزی کا محاورہ ہے کہ دریا عبور کرتے وقت گھوڑے تبدیل نہیں کیے جاتے۔ جب صوبائی قیادت تبدیل کرنے کا وقت تھا تو اس وقت یہ قدم نہیں اٹھایا گیا۔

نون لیگ سندھ کے ایک اور عہدیدار کا کہنا تھا کہ جب سے بشیر میمن صوبائی صدر بنے ہیں، میٹنگوں کا فقدان ہے۔ چند میٹنگز ہی اب تک ہو سکی ہیں۔ انہیں بھی باضابطہ نہیں کہا جا سکتا۔ ایک اور بات جس پر بہت سے پارٹی کے لوگوں کو تحفظات ہیں۔ وہ یہ ہے کہ بشیر میمن تک پارٹی عہدیداران کی براہ راست رسائی نہیں ہے۔

انہوں نے نہال ہاشمی کے خاص آدمی خرم بھٹی کو اپنا پی ایس او مقرر کیا ہے اور کہا ہے کہ ’’جس نے مجھ سے ملنا ہے وہ میرے پی ایس او سے ٹائم لے کر آئے‘‘۔ عہدیدار کے مطابق ’’اب میں اور میرے جیسے دیگر عہدیدار کبھی بھی اس طرح ٹائم لے کر نہیں ملیں گے۔ جسے ضرورت ہے وہ خود فون کر کے بلا سکتا ہے۔ جب غوث علی شاہ پارٹی کے صدر تھے تو انہوں نے بھی اپنا پی ایس او رکھا ہوا تھا۔ لیکن چونکہ وہ ایک سیاسی آدمی تھے۔ لہٰذا ان کا طریقہ کار نہایت سیاسی تھا۔ وہ ہر پارٹی عہدیدار کی عزت نفس کا خیال رکھتے تھے۔

مثلاً اگر غوث علی شاہ میٹنگ میں ہوتے اور ان کو کسی پارٹی عہدیدار کا فون آجاتا تو ان کا موبائل فون ان کے پرسنل سیکریٹری زاہد خان کے پاس ہوتا تھا، جو مرحوم طارق خان کے بھائی تھے۔ زاہد خان کال ریسیو کر کے نام نوٹ کر لیا کرتے تھے۔ جب غوث علی شاہ میٹنگ سے فارغ ہو جاتے تو وہ انہیں فہرست دے دیا کرتے۔ بعدازاں غوث علی شاہ مذکورہ عہدیدار سے خود بات کر لیتے تھے۔

اسی طرح غوث علی شاہ نے اپنی صوبائی کابینہ کے عہدیداران سے میٹنگز کے لیے اپنے بنگلے کے چار پانچ کمرے مختص کر رکھے تھے۔ گروپوں کی شکل میں عہدیداران ان سے الگ الگ کمروں میں ملتے تھے۔ تاکہ اگر کسی نے دل کی بات کرنی ہے تو کر سکے۔ اس کے برعکس بشیر میمن کا حال یہ ہے کہ گزشتہ ماہ انہوں نے اس نوعیت کی ایک میٹنگ اپنے گھر پر رکھی اور تمام عہدیداران کو ایک ہی کمرے میں بٹھا لیا۔ چنانچہ کوئی دل کی بات نہ کر سکا۔ بہت سی ایسی باتیں ہوتی ہیں جو سب کے سامنے نہیں کی جا سکتیں۔ چنانچہ ہر عہدیدار تشنگی لے کر اٹھا اور بیشتر کا کہنا تھا کہ میٹنگ کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

ایک صوبائی عہدیدار نے بتایا کہ سندھ کے صدر بشیر میمن کی زیرصدارت قریباً پندرہ دن پہلے ہونے والی ایک اور میٹنگ میں ضلع کے صدور اور جنرل سیکریٹریز کو بلایا گیا تھا۔ میٹنگ کو علی اکبر گجر نے مینیج کیا تھا۔ اس میٹنگ میں ایک گروپ ضلع کے ان عہدیداران پر مشتمل تھا جنہیں سندھ کے سابق صدر شاہ محمد شاہ نے مقرر کیا تھا۔ ایک گروپ کراچی کے صدر سلمان خان کا مقرر کردہ تھا۔

ماضی میں ان دونوں گروپوں کا آپس میں اختلاف اور جھگڑا رہتا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کو غیر آئینی قرار دیا کرتے تھے۔ تیسرا گروپ میٹنگ میں ان عہدیداران کا تھا، جنہیں شاہ محمد شاہ نے مقرر کر کے ہٹا دیا تھا۔ یوں یہ میٹنگ چوں چوں کا مربہ بن کر رہ گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اجلاس کا ایجنڈا ایم کیو ایم سے ہونے والی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے بارے میں مشاورت کرنا تھا۔ یعنی جب تمام معاملات طے پا چکے۔ اس کے بعد مشاورتی اجلاس بلایا گیا جو کہ پہلے بلانا چاہیے تھا۔

ادھر پارٹی ذرائع نے بتایا کہ سندھ میں ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے آج پیر کو لاہور میں ایک اہم اجلاس ہونے جارہا ہے۔ جس میں کراچی سمیت سندھ کے قومی و صوبائی اسمبلی حلقوں کے لیے پارٹی امیدواروں کے ناموں پر مشاورت کی جائے گی۔ یہ بھی خارج از امکان نہیں کہ امیدواروں کے نام فائنل کر لیے جائیں۔ یہ اجلاس ماڈل ٹائون لاہور میں نواز شریف کی زیرصدارت ہو گا۔ اس موقع پر شہباز شریف اور اسحاق ڈار بھی موجود ہوں گے۔ جبکہ اس سلسلے میں سندھ سے صوبائی صدر بشیر میمن، کھیل داس کوہستانی اور سابق صوبائی صدر شاہ محمد شاہ سمیت دیگر شرکت کریں گے۔