محمد قاسم :
خیبرپختونخوا میں افغان تاجروں کی غیرقانونی تجارت اور ان کی غیرقانونی طور پر اسمگلنگ کے حوالے سے حکومت خیبرپختونخواہ نے 56 بڑے افغان تاجروں کی نشاندہی کر دی ہے۔ محکمہ داخلہ نے افغان مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے نئی رپورٹ جاری کر دی۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے ایف بی آر اور دیگر اداروں کے ذریعے پشاور اور خیبرپختونخوا میں غیرقانونی کاروبار کے حوالے سے چھان بین مکمل کر لی ہے۔ پشاور میں غیر قانونی کاروباری کی تفصیلات کے مطابق بعض افغان تاجروں نے پاکستانی شناختی کارڈ بنوا رکھے ہیں۔ اب تک بڑے بڑے کاروبار سے منسلک 56 غیرقانونی مقیم افراد کے کاروبار کا پتہ لگایا گیا ہے جس میں بعض افغان تاجروں نے شہر کے مختلف علاقوں میں معروف برانڈ کی کمنپیاں پاکستانی تاجروں کے ناموں پر لے رکھی ہیں۔
پشاور میں 22 بڑے افغان تاجروں نے غیر قانونی طور پر پاکستانی شناختی کارڈ حاصل کیا ہے جبکہ 31 بڑے تاجر رجسٹرڈ ہیں۔ 31 افغان تاجر پاکستانی شہریوں کے نام پر کاروبار کررہے ہیں اور پشاور کے بڑے بازاروں، کارخانوں، مارکیٹ، قصہ خوانی مینا بازار، شاہین بازار اور چوک یادگار میں کپڑے، چائے، قالین، کتب خانوں، ہوٹلز، پراپرٹی، حوالہ ہنڈی اور امپورٹ ایکسپورٹ کررہے ہیں۔
جبکہ شاہین بازار کریم پورہ، کوچی بازار، حیات آباد، ڈھکی نعلبندی، دلہ زاک روڈ، رنگ روڈ، خیبر، سمبند، باجوڑ، دیر لوئر، دیر اپر، سوات میں کپڑے اور ہوٹلز میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ان علاقوں سے اربوں روپے کی کمائی پر کوئی ٹیکس نہیں دیا جارہا ہے۔ کیونکہ کمانے والی رقم کو ہنڈی حوالہ کے ذریعے دبئی، ترکی، افغانستان اور ایران کو ڈالر میں تبدیل کر کے بھجوایا جارہا ہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستانی شہری صرف تنخواہوں پر کام کررہے ہیں اور اکثر تنخواہوں کے ساتھ ساتھ بھاری کرائے وصول کرتے ہیں۔ جبکہ حکومت کو کرایوں کی مدد میں بھی غلط معلومات فراہم کررہے ہیں۔ افغان تاجروں کی پیسوں سے ٹیکس، انکم ٹیکس اور دیگر اداروں کے افسروں کو حصہ دیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ تعلقات بنائے جارہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق خیبرپختونخواہ میں افغانوں کی جانب سے تقریباً 300 ارب روپے کی سرمایہ کاری ہے لیکن حکومت کو اس پر کوئی ٹیکس نہیں مل رہا ہے۔ کیونکہ پاکستانی فائلرز ان غیر فائلرز کاروباری افغانوں کو سہارا دے رہے ہیں جس کی وجہ سے پختونخواہ میں حکومت کو ٹیکسوں میں کمی کا سامنا ہے۔
ذرائع کے مطابق تحقیقاتی ادارے پورے صوبے میں سابق افغان کمانڈروں کی جائیدادوں کی چھان بین بھی کررہے ہیں کیونکہ ترکی، روس، تاجکستان، ازبکستان اور دبئی میں مقیم سابق افغان رہنمائوں کو پاکستان سے ڈالر بھجوائے جارہے ہیں۔ ان رہنمائوں کے ان ممالک میں کاروبار نہ ہونے کے برابر ہیں، جبکہ ان کی طرز زندگی شاہانہ ہے۔ ذرائع کے مطابق کئی سابق افغان رہنمائوں نے 2023ء میں ترکی میں بڑے پیمانے پر پراپرٹی خریدی ہیں۔
ذرائع کے مطابق ماضی میں افغان کمانڈروں نے کارخانوں، مارکیٹ میں 450 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی تھی لیکن پھر طالبان حکومت کے خاتمے اور امریکی قبضے کے بعد ان سرمایہ کاری کو کابل اور دبئی منتقل کر دیا۔
ذرائع کے مطابق حکومت پاکستان نے افغانستان کو ضروری اشیا کو صرف 1 ارب ڈالر تک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے سامان لانے کی اجازت دی تھی۔ لیکن 2023ء میں تقریباً 5 ارب ڈالر کا سامان منگوایا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس میں بتدریج کمی آرہی ہے۔ تاہم اب ایران کے ذریعے ٹرانزٹ کا سامان منگوایا جارہا ہے اور یہ سامان پھر پاکستان کے سرحدی علاقوں سے بازاروں میں پہنچ جائے گا۔ ذرائع کے مطابق افغان تاجروں نے ایرانی اشیا سے خیبرپختونخواہ کی مارکیٹیں بھر دی ہیں جن میں چاکلیٹ، شیمپو، صابن، زیتون آئل اور دیگر سامان شامل ہے۔