محمد اطہر فاروقی :
بلدیہ میں دل کے واحد اسپتال کا ڈھانچہ تو تیار ہوگیا ہے، لیکن اسے عوام کیلئے ابھی تک نہیں کھولا گیا۔
واضح رہے کہ بلدیہ ٹاؤن آٹھ نمبر میں 16 برس قبل دل کے اسپتال کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ تاہم فعال ہونے میں مسلسل تاخیر سے یہاں مریضوں کا علاج ہوتا ہے نہ ڈاکٹرز اور طبی عملہ موجود ہے۔ تین عمارتوں پر مشتمل ایک خالی کمپلیکس عوام کو منہ چڑا رہا ہے، جس کی تعمیر پر 47 کروڑ سے زائد کے اخراجات آ چکے ہیں۔ 2007ء سے اب تک 4 مرتبہ افتتاح کئے جانے کے باوجود صوبائی حکومت نے امراض قلب کے اس اسپتال کو آپریشنل نہیں کیا۔ ضلع کے عوام دو اہم سیاستی جماعتوں کو اس غفلت کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ناقص تعمیرات مٹیریل کے استعمال اور دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب اسپتال و ہاسٹل کی چھت پر دراڑیں پڑنا شروع ہوگئی ہیں۔ کے ایم سی کی جانب سے اسپتال کے احاطے کی جگہ ایک نجی پارکنگ کمپنی کے حوالے کر دی گئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق ضلع کیماڑی و غربی کے درمیان بلدیہ ٹاؤن میں قائم دل کا بڑا اسپتال 16 سال گزرنے کے باوجود فعال نہ ہوسکا۔ اہم ذرائع نے بتایا کہ بلدیہ ٹاؤن پیر پارک سے متصل دل کے واحد سرکاری اسپتال کی بنیاد پہلی مرتبہ 2007ء میں اُس وقت کے سٹی ناظم مصطفیٰ کمال نے رکھی تھی، جس کے بعد پیپلز پارٹی کے مختلف وزیر صحت سندھ نے 2009ئ، 2011ء اور 2016ء میں مذکورہ اسپتال کا افتتاح کیا۔ پی پی کے سابق وفاقی وزیر صحت قادر پٹیل سمیت سابق ایم این اے قادر مندوخیل کا حلقہ ہونے کے باوجود اسپتال کو آپریشنل بنانے کے لئے کوئی اقدمات نہیں اٹھائے گئے۔
’’امت‘‘ کی جانب سے اسپتال کا سروے کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اسپتال کے دروازے پر کے ایم سی کی جانب سے ایک چوکیدار کو تعینات کیا گیا ہے۔ اسپتال بنیادی طور پر 3 عمارتوں پر مشتمل ہے۔ ایک عمارت میں اسپتال اور دوسری میں ہاسٹل ہے جبکہ اس کے علاوہ پانی کی بڑی ٹینکیاں بھی موجود ہیں۔ اسپتال کی عمارت کا کام کسی حد تک مکمل ہوچکا ہے۔ تاہم ہاسٹل کی عمارت میں تاحال کام باقی ہے۔ اسپتال کی عمارت میں لگائی گئی کھڑیاں ٹوٹ چکی ہیں۔ اسپتال کی چھت اور مختلف دیواروں پر دراڑیں بھی پڑ چکی ہیں۔ تاہم اس عمارت میں محکمہ صحت سندھ کی جانب سے گارڈ سمیت کسی بھی شخص کو تعینات نہیں کیا گیا ہے۔ اسپتال کی عمارت خستہ حالی کا شکار ہو رہی ہے۔ جبکہ دیواروں سے رنگ بھی اتر رہا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ کے ایم سی کی جانب سے تعینات کیا گیا چوکیدار اپنی فیملی کے ہمراہ اسپتال کے اندر ہی رہائش پذیر ہے۔ جبکہ اسپتال کے احاطے کو پارکنگ کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ اسپتال سے متصل پیر پارک میں کسی مخصوص تہوار پر آنے والے لوگ بھی اپنی موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں یہاں ہی پارک کرتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ دل کے اسپتال کی بنیاد رکھنے کے بعد اب تک 47 کروڑ روپے سے زائد کی رقم عمارتوں پر خرچ ہوچکی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق بلدیہ ٹاؤن میں 8 لاکھ سے زائد کی آبادی ہے۔ تاہم پورے ضلع میں ایک بھی بڑا سرکاری اسپتال موجود نہیں ہے۔ یہاں دل کے واحد اسپتال کا تقریباً 60 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے، لیکن اسپتال فعال نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری خزانے کو نقصان ہوسکتا ہے۔ محکمہ صحت سندھ کے ایک سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بلدیہ ٹاؤن میں موجود دل کے اسپتال کے لئے مختلف بجٹ پاس کئے گئے اور اسپتال کی تعمیر پر خرچ کئے گئے، لیکن اس کے بعد کسی نے اسپتال کی فعالیت کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کئے، اسی بنا پر اسپتال مکمل کھنڈر بنتا جا رہا ہے۔