عمران خان :
بیرون ملک جانے کے خواہشمند نوجوانوں کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے انسانی اسمگلر پہلے سے زیادہ سرگرم ہوگئے اور انہوں نے نئے ممالک میں نئی منزلیں تلاش کرلی ہیں۔ سادہ لوح نوجوانوں کو لوٹنے والے جعلی اور غیرقانونی ٹریول ایجنٹوں اور ایجوکیشن کنسلٹنٹس کے خلاف ایف آئی اے نے خفیہ اطلاعات پر کاروائیاں شروع کردی ہیں۔ تاہم یہ کارروائیاں انتہائی ناکافی ہیں جن میں ملزمان کے خلاف مقدمات میں تمام درست دفعات شامل نہیں کی جارہی ہیں، جس سے کیس انتہائی کمزور ہوتے ہیں۔ ملک کے مختلف شہروں میں ایسے موسی پٹیر بھی ایجنٹ بن کر سرگرم ہوگئے ہیں جن کی بیرون ملک موجود ایسے افراد سے سیٹنگ ہے جوکہ انہیں مشکوک ویزے لگوا کر بھیجوا سکتے ہیں۔ ایسے ایجنٹوں نے بغیر لائسنس کے پاسپورٹ اور لاکھوں کی فیسیں وصول کرنا شروع کردی ہیں۔
’’امت‘‘ کو ایف آئی اے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اگر کوئی ٹریول ایجنٹ بیرون ملک جانے کے امیدوار سے مقررہ فیس سے زائد وصول کرے تو اس کے خلاف فوری طور پر امیگریشن کی زیر دفعہ 22A کے تحت مقدمہ قائم ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی ایجو کیشن کنسلٹنٹ بغیر لائسنس کے ٹریول ایجنٹ کی حیثیت سے یا اورسیز ایمپلائنمنٹ پروموٹرز کی طرح شہریوں سے پاسپورٹ وصول کرکے اور فیس لے کر بیرون ملک بھیجوانے کے مراحل طے کرے تو اس پر زیر دفعہ 22Bکے تحت انسانی اسمگلنگ کا مقدمہ قائم ہو سکتا ہے جن میں 7سے 14برس قید کی سزا اور لاکھوں روپے جرمانے بھی ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایسے ملزمان پر انسداد انسانی اسمگلنگ اور امیگریشن اور پاسپورٹ ایکٹ کے ساتھ ہی پی پی سی کی زیر دفعہ 420کی کارروائی بھی مقدمات کا حصہ بنائی جاسکتی ہے۔
اسی طرح سے اگر کسی ایجنٹ کے ذریعے جانے والا شہری جعلی یا مشکوک دستاویزات پر سگر کرتا ہوا گرفتار ہوجائے یا ڈی پورٹ ہو کر واپس آجائے تو ایسے شہریوں کو حراست میں لے کر تفتیش کی جاتی ہے اور اگر یہ سامنے آجائے جانے والا شہری ایجنٹ کے جھانسے میں آیا تھا اور اس نے لاکھوں روپے دے کر لاعلمی میں یہ دستاویزات حاصل کیں تو ایسے شخص کو ملزم کے بجائے متاثرہ شخص قرار دیا جائے اور مقدمہ میں اس شہری کے بجائے ایجنٹ کے خلاف ہی مقدمہ درج کیا جائے یہ مقدمہ میں نئے قوانین ٹریفکنگ ان پرسن ( ٹی آئی پی ) یا اسمگلنگ آف مائگرنٹس (سوم) کی دفعات کے تحت درج کئے جاتے ہیں جن میں پاسپورٹ ایکٹ، امیگریشن ایکٹ کی دفعات بھی شامل کی جاسکتی ہیں۔
ایف آئی اے ذرائع کے بقول ان چاروں متعلقہ قوانین کی دفعات کے تحت اگر غیر قانونی ایجنٹوں کے خلاف بھرپور قسم کے مقدمات بنائے جاتے رہتے تو بہت پہلے ہی انسانی اسمگلروں کے خلاف ادارے کی رٹ قائم کی جاسکتی تھی اوراب تک ہزاروں شہریوں ان کی جمع پونجی سے محروم ہونے اور سزا بھگتنے سے بھی بچایا جاسکتا تھا ۔تاہم اصل حقائق یہ ہیں کہ ایف آئی اے کے اے ایچ ٹی سی سرکلوں میں تعینات بعض پرانے اور تجربے کار تفتیشی افسران نے ایجنٹوں کو شکار ہونے والے متاثرہ شہریوں کو ہی اپنی کمائی کا ذریعہ بنالیا جو متاثرین پیسے دینے کو تیار ہوجاتے ہیں انہیں متاثرہ شخص قرار دے کر ہلکا کیس بنایا جاتا ہے اور ایجنٹ کو مرکزی ملزم رکھا جاتا ہے۔ جبکہ جو شہری پیسے دینے کو تیار نہ ہو اس کو ہی اصل جعلساز اور ملزم قرار دے کر مقدمہ میں فٹ کردیا جاتا ہے حالانکہ یہ شہری پہلے ہی قرضے لے کر یا اپنی زمیں یا زیور بیچ کر ایجنٹوں کو لاکھوں روپے دے چکے ہوتے ہیں۔
حالیہ عرصہ میں لیبیا اور یونان میں کشتیوں کے حادثات میں سینکڑوں پاکستانیوں کے ڈوبنے کے واقعات سامنے آنے کے بعد حکومت کی ہدایات پر ایف آئی اے کی جانب سے ایسے جعلی ایجنٹوں کے خلاف ملک بھر میں کارروائیاں تیز کی گئیں جو کہ شہریوں کو پہلے وزٹ ویزوں پر لیبیا ،ترکی اور آسٹریا کے علاوہ افریقی ممالک لے کر جاتے ہیں اور وہاں سے انہیں غیر قانونی طور پر یورپی ممالک پہنچانے کا جھانسا دے کر لاکھوں روپے بٹور لیتے ہیں تاہم ان کارروائیوں میں دیکھا گیا ہے کہ بغیر لائسنس کے پاسپورٹ اور فیسیں لے کر دستاویزات دینے والے غیر قانونی ایجنٹوں کے خلاف پہلے صرف ایف آئی اے کی جانب سے اس وقت کارروائی کی جاتی رہی جب ان کے خلاف کوئی متاثرہ شہری درخواست گزار سامنے آتا تھا تاہم اب ایف آئی اے نے بعض کارروائیاں اپنی خفیہ اطلاعات پر بھی کی ہیں جن میں غیر قانونی ایجنٹوں کو گرفتار کرکے پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات ضبط کئے اور مقدمات درج کئے تاہم ان مقدمات میں بھی کیسوں کو ہلکا رکھا گیا تاکہ ملزمان کو عدالتوں سے ریلیف ملنے میں آسانی ہوسکے۔
اس وقت کام کرنے والے غیر قانونی ایجنٹوں میں زیادہ تر ایسے نام نہاد ایجو کیشن کنسلسٹنٹ بھی شامل سرگرم ہیں جو کہ خصوصی طور پر نوجوانوں کو ایجو کیشن ویزوں پر مختلف ممالک بجھوانے کے سہانے خواب دکھا کر لاکھوں روپے بٹور رہے ہیں ۔یہ کنسلٹنٹ تمام کے تمام غیر قانونی کام کر رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس شہریوں سے پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات وصول کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے تاہم ایسے ہزاروں کنسلٹنٹ ملک بھر میں دکانے سجائے بیٹھے ہیں اور مرکزی سڑکوں اور پوش علاقوں میں ان کے دفاتر قائم ہیں تاہم ایف آئی اے کی جانب سے ان کے خلاف شاذ و نادر ہی خفیہ اطلاعات پر کارروائی کی جاتی ہے ۔
اسی طرح سے کئی ایسے موسمی گروپ بھی سرگرم ہوچکے ہیں جن کے رابطے یورپی ممالک اور افریقی ممالک میں موجود بعض ایسے پرانے پاکستانیوں سے ہوئے ہیں جوکہ بعض مشکوک کمپنیوں اور اداروں کے نام پر ورک پرمٹ وغیرہ دلوانے کا جھانسا دے کر نوجوانوں سے لاکھوں روپے وصول کر رہے ہیں ۔ایسے گروپوں کی جانب سے نوجوانوں کو دئے گئے سفری دستاویزات پر جانے والے درجنوں شہری یا تو ایئر پورٹوں سے گرفتار ہوگئے یا پھر ان کو بیرون ملک سے واپس ڈیپورٹ کردیا گیا اور جو بیرون ملک پہنچنے میں کامیاب بھی ہوئے انہیں جن شرائط پر بلایا گیا تھا وہ تنخواہیں اور کمپنی مراعات نہیں ملیں بلکہ پھر انہیں دوسرے کام تلاش کرنے پڑے یا پھر گھروں اسے مزید رقوم منگوا کر دوسرے ملکوں کی جانب غیر قانونی طور پر جانا پڑگیا۔