نواز طاہر:
صوبائی دارالحکومت لاہور سمیت گردونواح میںمیں دھند کا راج ہے، لیکن لاہور کے اس علاقے میں دھند، اندھا دھند ہے جہاں پچھلے سال دھند کے باوجود میلہ لگا رہتا تھا، لیکن اب وہاں کوئی دکھائی نہیں دیتا، ہر جانب اندھیرا ہے اور خاموشی ہے۔ یہ لاہور کے قدیم پوش علاقے زمان پارک کی صورتحال ہے، جہاں سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی بانی عمران خان کی آبائی رہائش گاہ ہے۔ جس کا مالک و مکین اس وقت جیل میں ہے اور سنگین آئینی فوجداری مقدمات کا سامنا کر رہا ہے۔
یاد رہے کہ ایک سال قبل ٹھیک انہی دنوں میں لاہور کے وسط سے گزرتی نہر کا کنارا اور پورا زمان پارک پی ٹی آئی کے کارکنوں اور رہنماؤں سے کھچا کھچ بھرا رہتا تھا اور یہ شدید دھند والا واحد نصف کلومیٹر کا علاقہ تھا، جہاں پوری نہر کے مقابلے میں تیز روشنیوں اور گہما گہمی کے باعث دھند چند فیصد تھی۔
قومی و بین الاقوامی میڈیا ٹیمیں بھی ہمہ وقت موجود رہتی تھیں اور پھر پولیس کے ساتھ تصادم کے باعث یہ علاقہ ایک طرح سے علاقہ غیر بنا ہوا تھا۔ یہ گھر عمران خان کے بنی گالہ اسلام آباد منتقل ہونے کے طویل عرصے کے بعد حکومت کے خلاف لانگ مارچ کے دوران زخمی ہونے پر دوبارہ مکمل طور پر آباد ہوا تھا۔ پی ٹی آئی بننے کے بعد پہلی بار اس کی تمام سیاسی سرگرمیاں بھی یہیں منتقل ہوئی تھیں۔
پی ٹی آئی بانی کی گرفتاری روکنے کیلئے یہاں ایک مزاحمتی ’’بین الاقوامی‘‘ بستی قائم کی گئی تھی جس میں ملک کے تمام علاقوں کے علاوہ بیرون پاکستان سے بھی کارکنوں نے خیمے لگا رکھے تھے۔ انہی دنوں میں یہاں ریاستی اداروں کو للکارا جاتا تھا اور قانون حرکت میں آنے پر مزاحمت کی جاتی تھی۔ یہاں سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ چودھری پرویز الٰہی کو ہنگامی بنیادوں پر ملکی تاریخ میں پہلی بار صحری کے وقت صوبائی اسمبلی سے ووٹ لینے کے بعد اگلے روز اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم نامہ جاری کیا گیا۔ تاہم تمام تر رکاوٹوں اور مزاحمت کے باوجود عمران خان کو پانچ ماہ کے بعد گرفتارکرلیا گیا تھا، جس کے ساتھ ہی یہاں ویرانی چھاگئی تھی۔ البتہ زمان پارک کی گلیاں، پارک مقامی لوگوں کے استعمال اور کینال بینک کا یہ حصہ ٹریفک کی روانی معمول پر لانے کیلئے دستیاب ہوسکا تھا۔
ٹھیک ایک سال کے بعد اٹھائیس دسمبر کو شہر میں چھائی دھند کے دوران ’’امت‘‘ نے اسی زمان پارک کا جائزہ لیا تو پچھلے سال کے مقابلے میں ایک نامعلوم سے علاقے جیسا دکھائی دیا، جہاں نہ عارضی دکانیں، ٹھیلے، نہ خیمہ بستی، نہ کوئی جھنڈا بردار نہ ڈنڈا بردار دکھائی دیا۔ دوپہر کے وقت پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی کے مالی پارک کے کنارے پودوں کی دیکھ بھال کیلئے تو دکھائی دیئے اور تیسرے پہر کچھ مقامی خواتین معمول کے مطابق واک کرتی دکھائی دیں جو مغرب کی اذان سے پہلے ہی دھند چھانے کے آغاز پر لوٹ چکی تھیں اور اور لمحوں میں دھند نے پورے زمان پارک کو لپیٹ میں لے لیا تھا۔ دن کے وقت بھی یہاں پر نہ تو پی ٹی آئی کی جھنڈی دکھائی دی نہ ہی کسی نعرے کی بازگشت سنی گئی، سیکورٹی کے چند اہلکاروں کے ماسوا یہاں کوئی نظر نہیں آیا۔
دھند سے پہلے اسموگ کے دوران ہی جب ملک میں انتخابی سرگرمیاں شروع ہوئیں تو کسی سابق وزیراعظم کا سیاسی سرگرمیوں کا مرکز اس جیسا ویران نہیں پایا گیا، لاہور میں اس وقت سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے گھروں کے باہر گہما گہمی اس کے برعکس رہی۔ تمام سیاسی عمل کے دوران دھند شروع ہونے سے پہلے ہی اس گھر پر مکمل دھند چھائی تھی لیکن دھند شروع ہونے پر اب یہ گھر مکمل طور پر دھند اور خاموشی میں ڈوبا ہوا ہے۔
یہاں پر سیاسی سرگرمی کا تصور بھی دکھائی نہیں دیتا البتہ اس گھر کے سابق اور موجودہ مکینوں میں باہمی سیاسی و خاندانی سیاست، سازشوں اور خلفشار کی کہانیاں عام ہوچکی ہیں اور اس وقت بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ جن کے بنیادی کردار بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور ہمشیرہ علیمہ خان ہیں۔ یہاں موجود سیکورٹی، ملازمین اور گلی سے گزرنے والوں کے مطابق بانی پی ٹی آئی کے حق میں نعرے تو درکنار کسی کے اونچا بولنے کی آواز بھی سنائی نہیں دیتی۔
ایک سال کے فرق میں یوں لگتا ہے کہ پہلے جادوئی گھر تھا یا اب جادوئی گھر ہے، جس میں قلیل عرصے کے دوران ہی ایسی تبدیلی رونما ہوئی ہے جیسے ماضی میں پرائمری کے نصاب میں سویا ہوا محل کی ایک داستاں تھی۔