"بچپن میں والدکےکندھےپربیٹھ کر قائداعظم کی تقریرسنی”پروفیسرانورمسعود

سجاد عباسی/احمد خلیل جازم

آپ کسی شاعر کا تصور ذہن میں لاتے ہیں تو جو عمومی خاکہ ابھرتا ہے ، اس میں متفکر چہرہ، الجھی زلفیں اور مغموم آنکھیں نمایاں ہوتی ہیں مگر جب معاملہ پروفیسر انور مسعود کا ہو تو اِس خاکے میں خود بخود محبت، شفقت، ظرافت اور لطافت کے رنگ بھر جاتے اور آپ کے لبوں پر بےساختہ مسکراہٹ پھیلا دیتے ہیں۔
زندگی کی 88 بہاریں دیکھ چکے ہیں، مگر بہار اب بھی ان پر رشک کرتی ہے۔1935 میں پنجاب کے شہر گجرات(پاکستان) میں پیدا ہوئے. اورینٹل کالج لاہور سے ایم اے فارسی گولڈ میڈل کے ساتھ کیا۔کئی دہائیوں سے فارسی کے استاد ہیں۔يوں فارسی زبان و ادب پر دسترس کے ساتھ ساتھ اردو اور پنجابی پر یکساں گرفت رکھتے ہیں۔اگر عہد حاضر کے مزاح میں اردو نثر مشتاق یوسفی کی محتاج ہے تو شاعری میں یہ مقام اور مرتبہ انورمسعود کو حاصل ہے جو کئی دہائیوں سے برصغیر کے شعری میدان میں وکٹری اسٹینڈ پر کھڑے ہیں مگر انکسار ایسا کہ بایدو شاید۔اردو کے بے بدل شاعر احمد فراز کہتے ہیں”انور بڑا ظالم شخص ہے. یہ اڑتی ہوئی آوازوں کو پکڑ لیتا ہے پھر انہیں منجمد کرتا ہے ،وہ ایک بار پھر اڑنے لگتی ہیں مگر تتلیوں کی طرح”
مگر اس سطح پر پہنچنے سے پہلے انور مسعود نے دکھوں کے دریا عبور کیے ہیں۔صاحبزادی لینا حاشر کے بقول انور مسعود اپنے اندر ان گنت دکھ سمیٹے ہوئے ہیں، دکھوں کا ایک الاؤ ان کے اندر سلگتا ہے مگر وہ معاشرے کو قہقہے لوٹاتے ہیں۔غموں نے ان کے دل کو راکھ کیا اوروہ اس راکھ میں اپنے آنسو ٹپکا کر ،اور اسی روشنائی میں نوک قلم ڈبو کر اس سے مزاح لکھتے ہیں۔
وہ جانتے ہیں کہ کس گھڑی قاری کی آنکھوں میں آنسووں کی جھڑی لگوانی ہے اور کب اس کے اندر سے قہقہے برآمد کرنے ہیں۔ان کی محفل میں قوس قزح کے رنگ آپ کو اپنے اندر سمو لیتے ہیں ،گھنٹےلمحوں کی طرح محسوس ہوتے ہیں اور دل چاہتا ہے کہ وقت تھم جائے۔آپ زمان و مکاں کی حدود سے آزاد ہو کر دنیا کو انور مسعود کی آنکھوں سے دیکھنے لگتے ہیں۔مکالماتی شاعری میں انہیں ملکہ حاصل ہے۔ الفاظ اور محاورات ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں اور اس پر ان کا انداز بیان ۔۔اللہ اللہ۔۔
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ہم نے ان سے ملاقات کا وقت لیا تو گھر کا پتہ بتانے کا انداز بھی انوکھا تھاجس کا لُطف ہم راستے بھر اٹھاتے رہے۔”ایک درجن گلی اور دو درجن مکان "
اس قدر آسان ایڈریس کے باوجود ہم راستہ بھول گئے تو اس دوران ازراہ کرم انہوں نے کئی بار فون کر کے پوچھا کہ کہاں پہنچے ۔۔ تیسری بار اپنی مشکل کم از کم الفاظ میں بیان کرتے ہوئے کہا” انور صاحب مت پوچھیے”۔۔ اپنے مخصوص انداز میں پنجابی میں بولے "چلو نہیں پچھدا” اور فون بند کر دیا.. پھر گاڑی میں تین قہقہے بلند ہوئے۔
اب ہم پروفیسر انور مسعود اور آپ کے درمیان مزید حائل نہیں ہونا چاہتے۔۔ ان کی داستان حیات پڑھیے اور سر دھنیے۔

پہلا حصہ

پروفیسر انور مسعود امت کو انٹرویو دیتے ہوئے

اُمت ۔۔انور صاحب! سب سے پہلے تو تاخیر کی معذرت۔۔۔ ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا..
ج ۔کوئی بات نہیں ۔۔اس تاخیر کو "تا -خیر” سمجھیں (زبر کے ساتھ).. اس حوالے سے اپ کو ایک قصہ سناؤں. ایک بار میں ایران میں تھا تو ایک پروفیسر صاحب تھے جن کے علم سے میں نے بہت استفادہ کیا. نہایت سادہ مزاج انسان تھے، بالکل ہمارے ایدھی صاحب کی طرح۔وہ اپنے بیگ میں جو کی روٹی رکھتے تھے ،مگر جب بات کرتے تو ایسا لگتا کہ جیسے کئی کتابوں کو ایک جملے میں سمو دیا ہو۔ میں ان کا ایک جملہ آج تک نہیں بھلا سکا کہ "انتظار تعطیل حیات ہے” اب یہ ایک جملہ کئی مضامین پر بھاری ہے۔میں نے ان سے ایک بار پوچھا اقبال رحمت اللہ علیہ کے بارے میں اپ کی کیا رائے ہے؟ میرا سوال فارسی میں ہی تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ فارسی میرا مضمون ہے۔ تو انہوں نے جواب میں صرف دو الفاظ بولے "زود آمدے” یعنی جلدی آگیا ۔مطلب یہ کہ آنے والا سارا زمانہ اقبال کا ہے۔پروفیسر صاحب کا اسلوب بیاں ایسا تھا کہ دو لفظوں میں پوری کہانی بیان کر دی۔تو مجھے ایسے لوگوں کی مجلس میں بیٹھنے کا اعزاز حاصل رہا ورنہ اپنا تو معاملہ "من آنم کہ من دانم” والا ہے، بلکہ میں تو یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ میں جانتا ہوں کہ میں کیا ہوں۔۔ یہ تو گویا اپنی معرفت کا دعوی کرنے والی بات ہوئی۔میں تو کہتا ہوں کہ "من آنم کہ من نمی دانم” میں تو بھائی یہ بھی نہیں جانتا کہ میں کیا ہوں. جیسے شیخ سعدی نے کہا کہ "مٹی سے خوشبو آنے لگی تو میں نے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے ؟تو جواب ملا کہ میں ہوں تو مٹی مگر کچھ دن پھولوں کے ساتھ رہی ہوں۔
بہ گفتہ من گل ناچیز بودم
ولیکن مدت باگل می شامل
وہ جو کہتے ہیں ناں کہ "جمال ہم نشیں در من اثر کرد”
تو میری خوش نصیبی یہ ہے کہ مجھے بڑے بڑے اساتذہ کی صحبت میسر آئی۔ ان سے ہم نے لفظوں کو برتنا سیکھا۔ آپ جانتے ہیں کہ ایک ادیب یا شاعر کا تو ہتھیار ہی لفظ ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ درحقیقت لفظ سے بڑی تو کوئی قوت ہی نہیں۔ "کن” ایک لفظ ہی تو ہے جس نے کائنات بنا دی. اس سے بڑی کوئی توانائی ہو سکتی ہے؟ گالی ایک لفظ ہے مگر اس سے دوسرے کا خون کھولنے لگتا ہے. "شاباش” ایک لفظ ہے مگر اس کے سنتے ہی خون بھنگڑے ڈالنے لگتا ہے۔ بعض لفظ بڑے خوشگوار ہوتے ہیں اور بعض برے لفظ بھی ہوتے ہیں۔ گویا لفظوں کی اپنی ذاتیں ہیں (ہنستے ہوئے) کسی لفظ میں بہت زیادہ خشو نت ہوتی ہے ،کسی میں محبت ہوتی ہے۔ "کومل” لفظ کتنا پیارا ہے "سجیلا” کتنا اچھا لفظ ہے اور پھر بڑے بڑے "کمینے” لفظ بھی ہیں.(قہقہہ) گالی میں استعمال ہونے والے لفظ کمینے ہی تو ہوتے ہیں۔
س ۔انور صاحب ! لفظوں کے ابتدائی سفر سے آغاز کرتے ہیں۔ آپ نے بچپن کہاں گزارا ؟ابتدائی تعلیم کا کچھ احوال بیان کریں کچھ "حسب نسب” کے بارے میں بتائیں؟
ج۔بڑا مزیدار سوال ہے "حسب نسب” کا.. میرا ایک شعر ہے
غالب کا جگر گوشہ ہوں، اقبال کا فرزند
انور مجھے پوچھو تو یہی میرا نسب ہے
لیکن خیر یہ تو تفنن کے طور پر بات ہوئی۔ میرا تعلق گجرات کی "فین فیملی "سے ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ میں نے بجلی سے چلنے والے لوہے کے فین نہیں بنائے، بلکہ ساری زندگی گوشت پوست کے فین بنائے ہیں۔ آپ نے یونس فین کا نام سنا ہوگا، وہ میرے چچا تھے۔ جن لوگوں نے گجرات میں سب سے پہلے پنکھے بنائے، میرا تعلق اس فیملی سے ہے ایک طویل القامت شخص نے ایک بار مجھ سے کہا کہ میں اپ کا بہت بڑا فین ہوں تو میں نے کہا آپ پیڈسٹل فین ہیں۔

بیٹی لینہ حاشر کے ساتھ ۔۔خوشی کے لمحات
س ۔۔تو بچپن سارا گجرات میں گزرا؟
ج ۔جی بچپن کا کچھ حصہ گجرات میں گزرا ،پھر والد صاحب کاروبار کے سلسلے میں لاہور چلے گئے تو ہم وہاں منتقل ہو گئے۔ مصری شاہ کے نزدیک وسن پورہ ایک علاقہ ہے، وہاں میرا بچپن گزرا اور آج بھی مجھے وسن پورہ کی گلیاں بہت یاد آتی ہیں۔ مجھے یاد ہے وہاں کچی جماعت میں پڑھتے ہوئے مجھے پہلا انعام ملا تھا۔ میری ایک مس تھیں۔ انہوں نے بطور انعام مجھے دو چاک دیے تھے۔انعام اس بات پر کہ مجھے اناسی 79 اور نواسی 89 کا فرق معلوم تھا اور اب تو میں اپنی نواسیوں کو بھی ایٹی نائن 89 کہتا ہوں۔ میرا ذہن ہمیشہ لفظ کے پیچھے اسی طرح بھاگتا رہا ہے جیسے بچہ تتلی کے پیچھے بھاگتا ہے۔ گجرات کا واقعہ ہے ،گلی میں جا رہا تھا تو ایک عورت کی بطخ باہر نکل گئی۔ مجھے مخاطب کر کے کہا کہ "کاکا ذرا اس بطخ نوں ڈک لیویں” بچے ۔۔ذرا اس بطخ کو روکنا تو میں نے کہا بی بی ڈک معنی بطخ ہی ہوتا ہے ، تو میری توجہ ہمیشہ لفظ کی طرف ہی رہی۔
س۔اچھا تو اپ کا بچپن اسی طرح لفظوں سے کھیلتے ہوئے گزرا؟ بچپن کا کوئی اہم ترین واقعہ سنائیں جو دل پر نقش ہو؟
ج ۔تقسیم ہند کے بعد تقریبا” 1948 کے لگ بھگ ہم لاہور سے گجرات آ گئے تھے اور آپ کو اس عرصے کی اہم اور دلچسپ بات بتاؤں کہ میں نے بچپن میں قائدا اعظم کو دیکھا۔یہ 1946 کی بات ہے۔ اسلامیہ کالج میں جلسہ تھا۔ قائداعظم نے اردو میں تقریر کی تھی اور لوگوں کا جوش و جذبہ دیکھ کر کہا تھا کہ آپ لوگوں کا یہ جذبہ سلامت رہا تو عنقریب پاکستان آپ کا مقدر ہوگا اور آزادی آپ کے قدموں میں ہوگی۔ یہ قائد کی تقریر کے آخری الفاظ تھے جو مجھے ابھی تک یاد ہیں پھر اس کے بعد کچھ ہنگامہ بھی ہو گیا تھا۔خاکساروں نے کچھ گڑبڑ کر دی تھی۔ پھر قائد اعظم اسٹیج سے اترے تو ارد گرد مسلم لیگ کے رضاکاروں نے ننگی تلواروں کے ساتھ پہرا دیا۔
س۔قائدا اعظم کیسے لگ رہے تھے؟
اس وقت بھی ظاہر ہے ضعیف تھے، مگر بہت پروقار شخصیت۔ ایک دھان پان سا آدمی مگر آنکھوں میں بے پناہ چمک۔ چمک ان آنکھوں میں ہوتی ہے جن میں کوئی مقصدیت ہو۔
س ۔آپ کون سی کلاس میں تھے اس وقت؟
ج ۔۔ٹھیک سے یاد نہیں مگر ابا جی نے مجھے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا اس جلسےمیں۔ کیونکہ رش بہت تھا اور لوگ قائد اعظم کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے چین تھے ۔تو میں نے زندگی میں جو بڑی شخصیات دیکھی ہیں ان میں سب سے بڑی شخصیت قائد اعظم ہی کی تھی جو اب تک ہے ۔اس کے علاوہ میں نے سید مودودی کو دیکھا۔ ان سے تو کچھ پڑھنے کا موقع بھی ملا۔ پھر فیض صاحب سے ملاقات ہوئی۔ فراز اور پروین شاکر تو خیر ہمارے ہم عصر تھے ۔ہاں میں بھول گیا کہ علامہ مشرقی اور مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری کے دیدار کا بھی موقع ملا ۔ان کی تقریریں بھی سنیں ۔کیا بڑے لوگ تھے ۔اب دیکھیں ان تینوں بڑی شخصیات کا تعلق الگ الگ جماعتوں سے تھا۔علامہ صاحب خاکسار تحریک سے تھے۔ بخاری صاحب مجلس احرار الاسلام کے اور قائد اعظم مسلم لیگ کے رہنما، مگر تینوں کا اپنی اپنی جگہ احترام بے مثل تھا۔ قائدا اعظم کے چند الفاظ ہی سننے کا موقع ملا مگر اج تک ذہن و دل پر نقش ہیں ۔آواز میں اس قدر اعتماد اور گرج تھی کہ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ وہ واقعہ آج تک ویسے کا ویسا تر و تازہ محسوس ہوتا ہے۔(جاری ہے)