تاحیات نااہلی کا فیصلہ اسلامی اصولوں کیخلاف ہے، سپریم کورٹ

اسلام آباد : سپریم کورٹ نے آئینی عدالتوں کی طرف سے کسی کی اخلاقیات کے بارے ڈکلریشن جاری کرنے پر سوالات اٹھاتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ شواہد ریکارڈ اور جرح کئے بغیر ڈکلریشن کیسے جاری ہوسکتا ہے؟ جمعرات کو تاحیات نااہلی کے بارے مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز نے ریما رکس دیئے کہ ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ کیا آرٹیکل 62ون ایف کے ڈکلریشن کا اختیار سپریم کورٹ کو بھی حاصل ہے یا نہیں؟اگر آئینی عدالتوں کو اختیار حاصل ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ ٹرائل کے بغیر محض مفروضے پر ڈکلریشن کیسے جاری ہوسکتا ہے ؟ چیف جسٹس نے کہا تاحیات نااہلی کا فیصلہ عدالت نے آئین و قانون پر نہیں ،اپنی سوچ کے مطابق دیا، فیصلے منطق پر ہوتے ہیں، موڈ پر نہیں ، تباہی صوابدیدی اختیار سے آئی ہے،کسی کو بھی آزاد نہیں چھوڑا جاسکتا ،یہ نہیں ہوسکتا کہ جیسے چاہے تاحیات نااہل کرے اور جیسے چاہے چھوڑ دے ۔ چیف جسٹس نے کہا سمیع اللہ بلوچ کیس میں سپریم کورٹ نے تاحیات نااہل کردیا اور فیصل ووڈا کیس میں چھوڑ دیا گیا ،دونوں فیصلوں کو کیسے ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے ؟ چیف جسٹس نے بنیادی حقوق کو آئین میں فوقیت حاصل ہے،الیکشن لڑنا آرٹیکل 17کے تحت بنیاد حق ہے۔

چیف جسٹس نے کہا جو آج نااہل ہے، وہ کل اہل بھی ہوسکتا ہے ،اسلام میں تو صراط المستقیم پر آنے کے لئے توبہ کے دروازے ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں،تاحیات نااہلی اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے ۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی پرکہا جاسکتا امین نہیں مگریہ تونہیں کہا جاسکتا کہ ساری زندگی کیلئے انتخابات نہیں لڑسکتے۔جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ فیصل ووڈا کیس نے تو بہت آسان کردیا کہ کوئی بھی سپریم کورٹ آکر کہے کہ مجھے صادق اور امین قرار دیدیں ۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جو جج دوسروں کے صادق و اامین کے ڈکلریشن جاری کرتے ہیں، ان کے لئے بھی کوئی ڈکلریشن ہے ؟جسٹس محمد علی مظہر نے کہا جب تک شواہد ریکارڈ اور جرح نہ ہو، کسی کے خلاف ڈکری جاری نہیں ہوسکتی ۔جسٹس منصور علی شاہ نے ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے 62ون ایف کے تحت نااہلیت کی مدت کے تعین پر سوال اٹھایا اور کہا کہ آئین کو ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے ریگولیٹ نہیں کیا جاسکتا ۔عدالتی معاون عزیر بھنڈاری نے دلائل کے دوران تاحیات نااہلی کی حمایت کی اور سمیع اللہ بلوچ کیس کے فیصلے کا مشروط جائزہ لینے کی تجویز دی۔عدالت کے دوسرے معاون فیصل صدیقی نے سمیع اللہ بلوچ کیس کا از سر نو جائزہ لینے پر زور دیا اور کہا کہ یہ فیصلہ واپس لیا جائے گا تو الیکشن ایکٹ کا سیکشن 332جائز قانون ہوگا ،اس فیصلے کی موجود گی میں کاغذات نامزدگی سے متعلق ریٹرننگ افسر کے اختیار ات غیر واضح ہوں گے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا آئین میں ترامیم پارلیمنٹ پر تھوپی گئی ،ایک ڈکٹیٹرآیا، دوسرا پھرتیسرا آیا ،سب کواٹھا کرپھینک دیا ، کچھ لوگوں نے کہا چلوآدھی جمہوریت بھی آمریت سے بہترہے، ترامیم بھی گن پوائنٹ پرآئیں ۔انہوں نے کہا یہاں بیٹھے پانچ ججزکی دانش پارلیمنٹ میں بیٹھے 326منتخب لوگوں سےزیادہ کیسے ہوسکتی ہے؟ آئین کا تقدس اس وقت ہوگا جب ہم تقدس دیں گے، آپ جتنا بھی حقارت سے دیکھیں گے لیکن پارلیمنٹرین ہمارے منتخب نمائدے ہوتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا جب تک کوئی جھوٹا ثابت نہیں ہوتا ،ہم کیوں فرض کریں وہ جھوٹا ہے۔چیف جسٹس نے کہا جس ڈکٹیٹر نے پارلیمنٹرین کے لئے صادق اور امین کی شرط رکھی کیا، اس نے خود پر اس کا اطلاق کیا ،یہ بات نہیں کہ امین کے لئے جرنیل اور ان کے وزیر قانون کو انگریزی کا متبادل لفظ نہیں ملا بلکہ یہ ایک مقصد کے لئے شامل کیا گیا،اسلام میں منافق ،کافر سے بڑا مجرم ہے۔سجاد الحسن کے وکیل خرم رضا نے عدالتی دائرہ اختیار پر سوال اٹھائے اور کہا کہ یہ عدالت کس قانون کے تحت اس کیس کی سماعت کررہی ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی پرکہا جاسکتا امین نہیں مگریہ تونہیں کہا جاسکتا کہ ساری زندگی کیلئے انتخابات نہیں لڑسکتے۔چیف جسٹس نے مزید کہاکہ آمروں اورسیاست دانوں کوایک ساتھ نہیں پرکھا جاسکتا،آمرمنتخب ہوکرنہیں آئین توڑکرآتا ہے، جنرل ایوب نے آکرسب کوباہرپھینک دیا اوراپنے قوانین لائے، آمروں نے صادق اورامین کی شرط اپنے لئے کیوں نہیں ڈالی،سیاست دانوں کوبرا نہ بولیں، وہ عوامی رائے سےمنتخب ہوتے ہیں،آئین کا تقدس تب ہو گا جب اسے ہم مانیں گے، کیا پانچ جنٹلمینزکی دانش پارلیمنٹ کے اراکین کی دانش مندانہ قانون سازی کوختم کرسکتی ہے؟ اصغرسبزواری نے خرم رضا کے دلائل اپنائے ۔وکیل عثمان کریم نے آرٹیکل 62 اور63 پر دلائل دیتے ہوئے کہاکہ آرٹیکل 62 ون ایف صرف کاغذات نامزدگی کی حد تک ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ نااہلی کے مسئلے کوہمیشہ کیلئے طے ہونا چاہئے ،جھوٹ بولنے والا تاحیات نااہل اور بغاوت کرنے والا پانچ سال نااہل کیسے ہوسکتا؟ اس نکتے کی طرف کسی کا دیہان نہیں گیا۔

عزیر بھنڈاری کے دلائل کے دوران چیف جسٹس نے کہا پارلیمنٹ نے یہ ترامیم مرضی سے نہیں کیں، ان پر تھوپی گئی ہیں۔عزیر بھنڈاری نے کہا اٹھارہویں ترمیم کسی نے تھوپی نہیں ۔چیف جسٹس نے کہا پورے پاکستان کو یرغمال بنانے والے دوبارہ الیکشن لڑ رہے ہیں، کسی نے معافی نہیں مانگی ۔چیف جسٹس نے کہا آئین میں یہ سب چیزیں کہاں سے آئیں، یہ کوئی نہیں بتا رہا،کوئی وکیل بھی ڈکٹیٹر کیخلاف بات نہیں کرتا، ڈکٹیٹر کہتا ہے یہ ترامیم کرو، نہیں تو میں پچیس سال بیٹھا رہوں گا،آمر کو ہٹانے کیلئے پارلیمان اس کی بات مان لیتی ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک ڈیکلیریشن آنے کے بعد کوئی دوبارہ عدالت جا سکتا ہے؟کیاکوئی جا کر کہہ سکتا ہے اب توبہ کر لی، ڈیکلیئر کریں، میں بہت اچھا مسلمان ہوں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیا ایسا کوئی فیصلہ موجود ہے جس میں ایسا فیصلہ دیا گیا ہو؟ عزیر بھنڈاری نے کہا میں نے فیصل واوڈا کیس میں ایسا دیکھا ہے۔چیف جسٹس نے کہا یہ نہیں ہو سکتا فیصل واوڈا ندامت دکھائے تو معاملہ عدالتی موڈ پر چلا جائے،عدالت کا موڈ ہو تو تاحیات نااہلی کرے، موڈہو تو چھوڑ دے، ایسا نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس نے کہا اٹھارویں ترمیم میں آئین کی ٹیونگ کی گئی ، 62ون ایف جیسی چیزیں جبر سے آئیں، ایک شخص کی مرضی پورے پاکستان پر حاوی ہوگئی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ کہہ رہے الیکشن ایکٹ اور عدالتی فیصلے کی موجودگی میں تیسرا راستہ نکالا جائے،وہ اصول بتائیں جو اس صورتحال سے باہر نکالے،کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ سپریم کورٹ یہ معاملہ پارلیمنٹ پر ہی چھوڑ دے۔چیف جسٹس نے کہا سارے معاملے کا حل اسلام میں موجود ہے جس کی طرف ہم لوگ جاتے نہیں،قرآن پاک میں بتایا گیا ہے کہ انسان کا رتبہ بہت بلند ہے،سورت سجدہ واضح ہے کہ انسان برا نہیں، اس کے اعمال برے ہوتے ہیں،کسی کو تاحیات نااہل کرنا اسلام کے خلاف ہے،62 ون ایف انسان کو برا کہہ رہا ہے،تاحیات نااہلی توبہ کا راستہ بند کر دیتی ہے، اگر کوئی شخص گناہ سے توبہ کر لے تو معافی مل سکتی ہے،اگر کوئی آج زانی یا شرابی ہے تو وہ کل تو توبہ کر سکتا ہے،اگر توبہ کا راستہ خدا نے بند نہیں کیا تو عدالت کیسے کر سکتی ہے؟ جسٹس جمال خان نے کہا اگر کسی امیدوار کے کاغذات نامزدگی مسترد نہیں ہوتے تو مطلب وہ صادق اور امین ہے؟ کیس کی مزید سماعت آج پھر ہوگی۔