بعض متروکہ اشیا کے نشانات پر بھی امیدواروں کو اعتراض- آزاد امیدوار پسندیدہ نشان لینے کا حقدار نہیں، فائل فوٹو
 بعض متروکہ اشیا کے نشانات پر بھی امیدواروں کو اعتراض- آزاد امیدوار پسندیدہ نشان لینے کا حقدار نہیں، فائل فوٹو

انتخابی نشانات متعدد امیدواروں کیلیے خفت کا باعث بن گئے

نواز طاہر:

حالیہ انتخابات میں حصہ لینے والے کئی امیدواروں کو ایسے انتخابی نشانات الاٹ کیے گئے ہیں جو معاشرے میں عموماً مضحکہ خیز تصور ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی ایسے نشانات کو ہدفِ تنقید بنایا رہا ہے۔ واضح رہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے پر پی ٹی آئی کو اس کا انتخابی نشان ’’بلا‘‘ الاٹ نہیں کیا گیا اور اس کے نامزد امیدوار پارٹی کے دیرینہ انتخابی نشان سے محروم ہوچکے ہیں اور آزاد امیدوار کی حیثیت سے انہیں مختلف نشانات الاٹ کیے گئے ہیں۔

پی ٹی آئی کے بہت سے امیدوار پہلے ہی آزاد حیثیت میں پیالہ اور ریکٹ جیسے انتخابی نشانات حاصل کرچکے تھے۔ لیکن بعد میں کچھ امیدواروں نے ان نشاناتات پر اعتراض بھی کیا اور اسے تبدیل کروانے کیلئے عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کیا، ان میں پی ٹی آئی کابینہ میں مشیر رہنے والے عثمان ڈار کی والدہ ریحانہ امتیاز ڈار سرِ فہرست ہیں۔ انہیں سیالکوٹ کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے اکہتر سے ’جھولا‘ اور پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی چھیالیس سے ’ڈرل مشین‘ کا نشان الاٹ کیا گیا ہے۔

اسی طرح پی پی 46 سے پی ٹی آئی امید وار ان کی بھابھی روبا ڈار کو ’’ناریل‘‘ کا نشان الاٹ کیا گیا ہے۔ اسی طرح ’’بلے‘‘ کے نشان سے محروم رہ جانے والے پی ٹی آئی کے نامزد آزاد امیدواروں کو توا، زبان، سبز مرچ، فرائی پین، چمچ، جہاز، ریڈیو، وکٹ، انار، چارپائی، ہینڈ پمپ، گھڑیال، بکری، کْھسہ، چینک، جوتا، مور، وائلن، بیج، پیچ کس، وکٹ، ہاتھ گاڑی، ٹی شرٹ، ڈائس، حقہ، لیپ ٹاپ، وہیل چیئر، چِمٹا اور انگریزی حروفِ تہجی الاٹ کیے گئے ہیں۔

آزاد امیدواروں کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کے کئی ٹکٹ ہولڈرز کو بھی پارٹی کے بجائے الگ انتخابی نشانات الاٹ کرنے کا معاملہ سامنے آیا ہے، جس پر پاکستان پیپلز پارٹی نے پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی ایک سوتریسٹھ سے پارٹی امیدوار فیاض بھٹی کو الاٹ ہونے والے انتخابی نشان چینک کو تیر میں بدلنے کیلئے الیکشن کمیشن کو مراسلہ بھی لکھ دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے سابق وزیر اطلاعات پنجاب اور آئی پی پی کا حصہ بننے والے آزاد امیدوار فیاض الحسن کو انتخابی نشان میں ’’ملکہ‘‘ حصے میں آئی ہے ۔

لاہور، گوجرانوالہ اور فیصل آباد میں خاص طور پر نشانات کے حوالے سے ووٹروں میں انتخابی لطیفے اور گرماگرم جملہ بازی چل رہی ہے۔ جن نشانات پر سب سے زیادہ تنقید کی گئی ہے ان میں جوتا ، بکری ،چمچ، وہیل چیئر، پیچ کس اور تتلی جیسے نشانات قابلِ ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ بعض نشانات ایسے ہیں جو موجودہ دور میں متروک اشیا قرار دیے جاتے ہیں اور بعض کو دیہی عوام کیلئے مشکل نشانات قراردیا گیا ہے۔ ان میں مٹی کے تیل کا چولہا اور فوٹواسٹیٹ مشین وغیرہ شامل ہیں ۔

انتخابی نشان ’’جوتے‘‘ پر زیادہ جملہ بازی جاری ہے کہ جو اپنا نشان لہرائے گا ، وہی سر پر کھائے گا۔ تتلی عمومی طور پر رقاصائوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور اس سے کئی بے ہودہ جملے منسوب ہیں۔ ’’چمچ‘‘ بھی سماجی طور پر پہلے ہی خوشامدی انسان معروف ہے۔ ایسی ہی جملے بازی وہیل چیئر کے بارے میں بھی ہورہی ہے اور کچھ جملے تو ضبطِ تحریر یں بھی نہیں لائے جاسکتے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی نشانات کو حتمی شکل دیتے وقت زیادہ ہوشمندی اور سماجی ماحول کو مدِ نظررکھناضروری نہیں سمجھا۔ سیاسی جماعتوں کو بھی براہِ راست اس کا ذمہ دار قرار دیا گیا اور کہا جارہا ہے کہ جن سیاسی جماعتوں اورقائدین کو انتخابی نشانات کا ادراک نہیں، انہیں آئین سازی و قانون سازی اور ملکی مسائل کے حل کا ادراک کیسے ہوسکتا ہے؟

سوشل میڈیا پر یہ دلیل بھی دی جارہی ہے کہ شائد سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کے مقابل الیکشن لڑنے والے آزاد امیدواروں کو انتخابی مہم میں تنقید و مزاق کا نشانہ بنوانے کیلئے ایسے نشانات کی حامی رہی ہوں گی۔ واضح رہے کہ انتخابی نشان عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت جاری الاٹ کیے جاتے ہیں، جس میں صرف رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کو ہی اپنی پسند کا نشان لینے کی درخواست دینے کا حق حاصل ہے۔ جب کہ آزاد امیدوار انفرادی طور پر اپنی پسند کا نشان حاصل کرنے کا قانونی حق نہیں رکھتا۔

اس ضمن میں سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دکشاد کا کہنا تھا کہ، ایک بار الاٹ کیا جانے والا انتخابی نشان تبدیل نہیں ہوسکتا۔ جو نشان الاٹ ہوجاتا ہے، اسی پر ہی الیکشن لڑنا پڑتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اعلیٰ عدالتوں کے اپنے اختیارات ہیں اور عدلیہ اپنے دائرے میں ہی رہ کر اختیارات استعمال کرتی ہے۔ جبکہ انتخابی نشانات کے حصول اور الاٹ منٹ کے تنازع کا حل اور طریق کار سنہ دوہزار دو کے انتخابی نشانات الاٹمنٹ آرڈر میں طے ہوچکاہے۔

سینئر قانون دان نجمہ پروین کا کہنا تھا کہ انتخابی نشان کی الاٹمنٹ کے وقت ہی یہ معاملہطے ہوجانا چاہئے اور نا پسندیدہ نشان ملنے پر یہ معاملہ ریٹرننگ آفیسر کے سامنے ہی تحریری طور پر منطق و دلیل کے ساتھ اٹھانا چاہیے اور اگر ریمڈی نہ ملے تو پھر عدالت سے بھی رجوع کرنے میں کوئی امر مانع نہیں۔