اس حلقے سے پیپلز پارٹی نے ضمنی الیکشن جیتا تھا، فائل فوٹو
اس حلقے سے پیپلز پارٹی نے ضمنی الیکشن جیتا تھا، فائل فوٹو

کراچی کا نظر اندازانتخابی حلقہ

امت رپورٹ
کراچی کا ایک انتخابی حلقہ ایسا بھی ہے، جہاں سے ملک کی تقریباً تمام بڑی سیاسی پارٹیوں نے اپنے امیدوار منتخب کرائے۔ لیکن اس حلقے کی قسمت نہ بدل سکی۔ این اے 242 آج بھی زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ وہاں اب بھی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں۔ گٹر ابلتے ہیں اور پانی کی شدید قلت ہے۔ کیماڑی اور بلدیہ ٹائون پر مشتمل یہ حلقہ گزشتہ الیکشن میں این اے 249 تھا۔
اس حلقے کی تاریخ بڑی دلچسپ ہے۔ تقریباً اکیس برس پہلے انیس سو ستانوے کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اس حلقے سے الیکشن لڑا تھا ، تب پی ٹی آئی کا انتخابی نشان چراغ یا دیا تھا۔ تاہم عمران خان کی ضمانت ضبط ہوگئی تھی۔ انہوں نے صرف دو ہزار سینتیس ووٹ حاصل کئے تھے۔ یہ حلقہ اس وقت این اے 184 تھا۔ بلدیہ، سعید آباد اور دیگر علاقے تب بھی اسی حلقے میں تھے۔ تاہم شہر کی بڑھتی آبادی کے پیش نظر پچھلی دو دہائیوں میں یہ حلقہ کئی بار تقسیم کیا گیا اور متعدد بار اس میں نئے علاقے شامل ہوئے۔ اب یہ حلقہ این اے 242 (کیماڑی ون) کہلاتا ہے۔ اس میں بلدیہ اور مومن آباد، دونوں سب ڈویژنوں کے علاقے شامل ہیں۔ یہ کیماڑی اور بلدیہ کے علاوہ سعید آباد ، گلشن غازی، مجاہد کالونی ، گجرات کالونی ، ترک کالونی ، جام نگر، رشید آباد، حسینی نگر، انعام کالونی ، آفریدی کالونی ، غوث نگر، مدینہ کالونی اور دیگر علاقوں پر مشتمل ایک وسیع انتخابی حلقہ ہے۔
اگر انیس سو ترانوے کے عام انتخابات سے بھی اس حلقے کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت یہ نون لیگ کا مضبوط سیاسی گڑھ ہوا کرتا تھا۔ انیس سو ترانوے کا الیکشن اس حلقے سے نون لیگ کے میاں اعجاز شفیع نے جیتا تھا۔ جبکہ ستانوے کے الیکشن میں بھی نون لیگ کے میاں اعجاز شفیع نے میدان مارا۔ تب انہوں نے الطاف حسین کی زیر قیادت ایم کیو ایم کے امیدوار کو شکست دی تھی، حالانکہ اس وقت شہر میں ایم کیو ایم کا طوطی بولتا تھا۔ اس الیکشن میں پیپلز پارٹی کے امیدوار میجر جنرل (ر) نصیر اللہ بابر تھے، جنہوں نے کراچی آپریشن کے حوالے سے شہرت پائی تھی۔ لیکن وہ الیکشن ہار گئے تھے۔
این اے 242 شروع سے ہی کثیر النسل انتخابی حلقہ رہا ہے۔ اس حلقے کی خوبصورتی اس کا ووٹ بینک ہے، جو پاکستان کی تمام زبانیں بولنے والوں پر مشتمل ہے۔ یہاں اردو اسپیکنگ، پشتون، پنجابی، سرائیکی، بلوچ، سندھی اور دیگر قومیتوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ جبکہ یہاں مذہبی جماعتوں کا بھی قابل ذکر ووٹ بینک ہے۔ قدر مشترک یہ ہے کہ ان تمام قومیتوں سے تعلق رکھنے والے ووٹروں کی بڑی تعداد کم آمدنی والے طبقے سے ہے۔ یہ کراچی کے ان انتخابی حلقوں میں شامل ہے، جہاں سندھ کی سرحدیں بلوچستان سے ملتی ہیں۔
تقریباً تین دہائی قبل اس حلقے کے نون لیگ کا سیاسی گڑھ بننے کا ایک بڑا سبب یہاں پنجابی بولنے والے ووٹروں کی ایک بڑی تعداد کا موجود ہونا بھی تھا جبکہ نون لیگ کشمیریوں اور سرائیکی بولنے والوں میں بھی مقبول ہے۔ ترانوے اور ستانوے کے عام انتخابات اس حلقے سے مسلسل نون لیگ کے میاں اعجام شفیع نے جیتے، جس کا ذکر کیا جاچکا ہے۔ پھر نون لیگ کی کامیابیوں کو بریک لگ گیا۔ کیونکہ دو ہزار دو کا الیکشن متحدہ مجلس عمل کے امیدوار نے جیتا، جنہیں حلقے میں موجود مذہبی ووٹ بڑی تعداد میں پڑا تھا۔ دراصل حلقے کے عوام نون لیگ سے مایوس ہوچکے تھے اور جب انہوں نے دیکھا کہ دو بار نون لیگ کو یہ سیٹ دلانے کے باوجود حلقے کے مسائل اپنی جگہ برقرار ہیں تو انہوں نے ایک تبدیلی کے طور پر مذہبی جماعتوں کے اتحاد کو سیٹ دلادی۔ حلقے کے عوام کی امیدیں تب بھی پوری نہ ہوسکیں۔ گٹر ابلتے رہے، سڑکیں چیچک زدہ رہیں اور عوام پانی کی تلاش میں سرگرداں رہے۔ یہی وہ موقع تھا، جب حلقے کے عوام نے ایم کیو ایم کو آزمانے کا فیصلہ کیا، تب اس کے قائد الطاف حسین تھے اور کراچی پر ان کا جابرانہ کنٹرول تھا۔ دو ہزار آٹھ سے لے کر دوہزار تیرہ تک اس حلقے سے مسلسل ایم کیو ایم کے امیدوار کامیاب ہوتے رہے۔ دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں ان کامیابیوں کو تحریک انصاف نے بریک لگایا۔ فیصل واوڈا ایک قریبی مقابلے کے بعد شہباز شریف کو ہراکر یہ سیٹ جیتے تھے۔ چونکہ پی ٹی آئی تبدیلی کا نعرہ لگاکر آئی تھی، چنانچہ ایم کیو ایم سے مایوس حلقے کے عوام نے سوچا کہ پی ٹی آئی کے امیدوار کا انتخاب کیا جائے، شاید ان کی قسمت کا تالا کھل جائے۔ لیکن یہ خواہش پوری نہ ہوئی۔ حلقے کے لوگ اپنے بنیادی حقوق سے محروم رہے۔ فیصل واوڈا کے نااہل ہونے کے بعد اس حلقے میں دو ہزار اکیس میں ہونے والا ضمنی الیکشن پیپلز پارٹی کے قادر خان مندوخیل نے جیت لیا۔
اب کل ہونے والے الیکشن دو ہزار چوبیس میں اس حلقے سے ایم کیو ایم کے مصطفیٰ کمال میدان میں اس وعدے کے ساتھ اتر رہے ہیں کہ وہ کامیاب ہونے کی صورت میں حلقے کے عوام کو ناصرف پینے کا صاف پانی فراہم کریں گے، بلکہ علاقے کی قسمت بدل دیں گے۔ اس حلقے سے نون لیگ کے صدر اور سابق وزیراعظم شہباز شریف دستبردار ہوچکے ہیں۔ ان کی جگہ نون لیگ کے خواجہ غلام شعیب الیکشن لڑیں گے جبکہ پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر قادر مندوخیل کو ٹکٹ دیا ہے۔ جماعت اسلامی اور تحریک لبیک نے بالترتیب فضل احد اور محمد ساجد کو اکھاڑے میں اتارا ہے۔ دیکھنا ہے کہ اس بار ستم رسیدہ حلقے کے عوام کسے منتخب کرتے ہیں اور کیا اس دفعہ ان کی امیدوں کے چراغ جلتے رہیں گے یا پچھلی تین دہائیوں کی طرح بجھے رہیں گے۔