میگزین رپورٹ :
سرد موسم کی ایک اہم سوغات مُولی بھی ہے۔ بکثرت اور سستے دام ملنے والی مُولی، غیر معمولی طبی فوائد سے مالال ہے۔ یہ دراصل ایک پودے کی جڑ ہے۔ جسے بطور سبزی اور سلاد استعمال کیا جاتا ہے۔ پنجاب کے شہروں میں ان دِنوں جابجا ٹھیلے نظر آتے ہیں۔ جہاں مولی کی قاشوں پر کالا نمک اور لیموں چھڑک کر فروخت کیا جاتا ہے۔
طبی ماہرین کے بقول، مُولی کو اسی طرح کچی حالت میں کھانا بہترین ہے۔ تاہم مُولی کی بھاجی، پراٹھے اور مختلف قسم کے اچار بھی انتہائی لذیذ ہونے کے ساتھ بہت فائدہ مند تسلیم کیے جاتے ہیں۔ غذائی ماہرین کا کہنا ہے کہ 100 گرام مُولی میں 18 کیلوریز، 6 فیصد ڈائیٹری فائبر، 2 فیصد کیلشیم، 36 فیصد وٹامنز سی اور 4 فیصد میگنیشیم پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ فاسفورس، آئرن، پوٹاشیم، سوڈیم، فولک ایسیڈ اور دیگر مرکبات بھی پائے جاتے ہیں۔
مُولی کی تاثیر گرم تر ہے۔ اسی وجہ سے سرد موسم میں دمے اور سانس کے مریضوں کو باقاعدگی سے استعمال کرنی چاہیے۔ یہ عموماً 10 سے 20 سینٹی میٹر لمبی اور 3 سے 7 سینٹی میٹر موٹی ہوتی ہے۔ مُولی دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک جڑ سفید اور لمبی ہوتی ہے اور دوسری قسم گول مُولی ہوتی ہے۔ جِس کے چھلکے سرخ یا سیاہی مائل ہوتے ہیں۔ تروتازہ، نازک، لمبی اور کم ریشے والی مولی بہترین ہوتی ہے۔ مُولی زیادہ تر سردیوں کے موسم میں پیدا ہوتی ہے۔ مگر بعض پہاڑی علاقوں میں سارا سال پیداوار ہوتی ہے۔ زمین کے فرق کی وجہ سے اس کے ذائقے میں بھی تبدیلی آجاتی ہے۔
مُولی کی جڑ سے براہ راست سبز پتے پھوٹتے ہیں۔ اس سے خوراک کا حصہ بنانا کئی بیماریوں سے تحفظ اور جسمانی اعضا کی مضبوطی کیلئے انتہائی مفید ہے۔ مُولی کا آبائی وطن وسطی ایشیا سمجھا جاتا ہے۔ اسے قدیم مصر اور یونان میں بھی کاشت کیا جاتا تھا۔ لیکن اب ایشیا اور افریقہ کے تقریباً تمام ممالک میں کاشت کی جاتی ہے۔
مُولی کے پتوں کو ساگ کے طور پر بھی پکا کر کھایا جاتا ہے۔ حکما کے مطابق پتھری کے مریضوں کیلئے مُولی مفید سبزی ہے۔ بطور سلاد اسے کھانے سے پتھری کے مرض میں مبتلا افراد کو افاقہ ہوتا ہے۔ روزانہ استعمال سے پتھری گھل کر ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے اور جسم سے خارج ہو جاتی ہے۔ مولی کے رس کا آدھا کپ روزانہ پینے سے لیکوریا کے مرض سے چھٹکارا بھی ممکن ہے۔ مولی کے پتوں کا عرق نکال کر اس میں چینی ملا کر پلانے سے بہت جلد یرقان کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
جگر اور تِلی کے افعال میں خرابی کی شکایات سے پریشان افراد کیلئے مُولی کا استعمال ایک بہترین ذریعہ ہے۔ جبکہ کمزور مثانے والے افراد بھی اس کا استعمال کریں تو انہیں چند دنوں میں افاقہ ہوتا ہے اور مثانے کی کمزوری دور ہو جاتی ہے۔ مُولی میں چونکہ معدنیات کی کثرت ہے۔ چنانچہ یہ جگر اور پیٹ کیلئے انتہائی مفید اور جسم کو توانائی بخشتی ہے۔ مُولی خون صاف کرنے کیلئے بھی انتہائی مفید ہے۔ یہ جسم میں سرخ خلیات کم ہونے کا تدارک کرتی ہے۔
پیٹ کی بیماریوں، خصوصاً قبض کی شکایت دور کرنے کیلئے اسے دو وقت بطور سلاد کھائیں۔ اس کے استعمال سے آنتوں کی کارکردگی بہتر اور نظام ہاضمہ درست ہوتا ہے۔ مُولی میں پوٹاشیم کی بھرپور مقدار پائی جاتی ہے۔ اس کا استعمال خون میں پوٹاشیم اور سوڈیم کی مقدار کو کنٹرول کرتا ہے اور بلڈ پریشر کو متوازن رکھتا ہے۔ باقاعدہ استعمال سے زائد وزن میں کمی بھی واقع ہوتی ہے۔ موٹاپے سے پریشان افراد مُولی کے رس میں لیموں اور کالا نمک پلا کر پیئیں۔ اس سے زائد وزن میں خاطر خواہ کمی واقع ہوگی۔ مولی میں فولک ایسیڈ اور وٹامن سی پایا جاتا ہے۔ جو جسم میں کینسر کے خلاف قوت مدافعت کو بڑھاتا ہے۔
کسی بھی موذی کیڑے کے کاٹنے سے ہونے والی سوجن اور درد سے نجات کیلئے متاثرہ حصہ پر مُولی کا عرق لگانے سے کافی آرام ملتا ہے۔ بواسیر کے مریضوں کو مُولی کے پتے کی سبزی بناکر کھانے سے آرام ملتا ہے۔ کھانے کا ہضم نہ ہونا یا کھٹی ڈکار کے دوران مُولی کافی مفید ہے۔ اس کے ایک کپ عرق میں مصری میں ملاکر پینے سے بدہضمی اور کھٹی ڈکاروں سے نجات ملتی ہے۔
دردِ معدہ دور کرنے کیلئے مُولی کے رس میں ایک، ایک چٹکی نمک اور کالی مرچ ڈال کر پی لیں تو افاقہ ہوتا ہے۔ کھانسی کی وجہ سے گلا بیٹھ جائے تو ایک چمچ مُولی کے تازہ رس میں ہم وزن شہد اور تھوڑا سا نمک ملا کر مریض کو پلائیں۔ دن میں تین بار یہ نسخہ استعمال کریں۔ ان شاء اللہ آرام آجائے گا۔ اسی طرح روغنِ گل کے ساتھ مولی کا عرق نکال کے اچھی طرح جوش دیں۔ جب پانی سوکھ جائے اور صرف روغنِِ گل رہ جائے تو نیم گرم روغن کان میں ٹپکانے سے کان درد ٹھیک ہو جاتا ہے۔
مولی کے بیج سے بِنا مرہم پھلہری یا برص میں افاقہ دیتا ہے۔ 35 گرام مُولی کے بیج کا سفوف بناکر اس میں سرکہ ڈالنے سے مطلوبہ مرہم تیار ہو جاتا ہے۔ یہ مرہم برص کے سفید دھبوں پر لگانا چاہیے۔ ایسے لوگ جو دمہ یا سانس کی تکلیف میں مبتلا ہوں۔ وہ باقاعدگی سے کچی مُولی کھائیں۔ مُولی میں موجود اجزا کی بدولت سینے کی جکڑن کم ہوتی ہے اور سانس لینے میں آسانی ہوتی ہے۔