فائل فوٹو
فائل فوٹو

سندھ بھرکے 20 ہزار قیدیوں کے ووٹ ضائع

سید حسن شاہ
سندھ بھر کی جیلوں میں موجود 20 ہزار قیدیوں کے ووٹ ضائع ہوگئے۔ پوسٹل بیلٹ پیپر کے ذریعے ووٹ کاسٹ کرنے کا علم نہ ہونے سے بڑی تعداد میں قیدی حق رائے دہی استعمال نہ کر سکے۔ جیلوں کی انتظامیہ کی عدم دلچسپی کے باعث بھی قیدیوں کو ووٹ کاسٹ کرنے کے طریقہ کار سے آگاہی فراہم نہ کی جاسکی۔ دوسری جانب معروف قانون دان جسٹس (ر) بیرسٹر خواجہ نوید احمد کا کہنا ہے کہ تمام پارٹیوں کے سربراہوں کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر الیکشن کمیشن سے مطالبہ کریں کہ تمام قیدیوں کو بیلٹ پیپر بھیجے جائیں۔ کیونکہ ایک بہت بڑا طبقہ جیل میں بند ہے۔

واضح رہے کہ سندھ کی مختلف جیلوں میں مختلف نوعیت کے مقدمات میں گرفتار تقریبا 20 ہزار سے زائد قیدی موجود ہیں۔ سینٹرل جیل کراچی میں 5484، ڈسٹرکٹ جیل ملیر میں 5438، سینٹرل جیل حیدر آباد میں 2062، سینٹرل جیل سکھر میں1318، سینٹرل جیل لاڑکانہ میں 888، سینٹرل جیل خیر پور میں 753، سینٹرل جیل میرپورخاص میں 545، ڈسٹرکٹ جیل شہید بے نظیرآباد میں 240، ڈسٹرکٹ جیل لاڑکانہ میں 66، ڈسٹرکٹ جیل سانگھڑ میں161، ڈسٹرکٹ جیل جیکب آباد میں 267، ڈسٹرکٹ جیل دادو میں 291، ڈسٹرکٹ جیل بدین میں 389، ڈسٹرکٹ جیل شکارپور میں 405، ڈسٹرکٹ جیل نوشہرو فیروز میں 175، ڈسٹرکٹ جیل گھوٹکی میں 258، اسپیشل جیل نارا حیدرآباد میں 303، ڈسٹرکٹ جیل نواب شاہ میں 349، بچہ جیل کراچی میں 157، بچہ جیل حیدرآباد میں 13، بچہ جیل سکھر میں 12، خواتین جیل کراچی میں 147، خواتین جیل حیدرآباد میں 45 اور خواتین جیل سکھر میں 30قیدی بند ہیں۔

ذرائع کے بقول کہ قیدیوں کیلئے کسی بھی انتخابات میں حق رائے دہی استعمال کرنے کیلئے جیلوں میں کوئی پولنگ بوتھ بنایا جاتا ہے نہ کسی ریٹرننگ افسر کو جیلوں میں تعینات کیا جاتا ہے۔ جبکہ قیدیوں کو ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے پوسٹل بیلٹ پیپر کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ جو ان کیلئے مشکل طریقہ ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات سے قبل جیلوں کی انتظامیہ کو خط لکھا جاتا ہے کہ اگر کوئی قیدی انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا چاہے تو وہ اپنے حلقے کے ریٹرننگ افسر کے نام درخواست لکھ کر بھیجے۔ جس کے بعد انہیں پوسٹل بیلٹ پیپر ارسال کیا جائے گا۔ وہ پوسٹل بیلٹ پیپر بھر کر ڈاک کے ذریعے ریٹرننگ افسر کو ارسال کرے تو اس کا ووٹ کاسٹ ہو جائے گا۔

الیکشن کمیشن کے لیٹر کے بعد جیل انتظامیہ کا کام ہے کہ وہ تمام قیدیوں کو اس حوالے سے آگاہ کرے اور جو قیدی اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی درخواستیں وصول کرکے انہیں ریٹرننگ افسران کی مدد سے پوسٹل بیلٹ کے ذریعے ڈکلیئریشن فارم مہیا کرے۔ ذرائع کے بقول جیلوں میں بند بڑی تعداد میں قیدی حق رائے دہی استعمال کرنے کی اس سہولت سے لاعلم ہیں۔ جس کی ایک وجہ جیل انتظامیہ کی اس معاملے میں عدم دلچسپی بھی ہے۔ اگر کوئی قیدی خود انتظامیہ کو درخواست دے تو صرف اسی کی درخواست آگے بھیجی جاتی ہے۔ جبکہ ووٹ کاسٹ کرنے کے حوالے سے انتظامیہ کی جانب سے قیدیوں کو کسی قسم کی آگاہی فراہم کرنے کا انتظام نہیں کیا جاتا۔

اس کے علاوہ کئی قیدیوں کے شناختی کارڈ بھی ان کے پاس موجود نہیں۔ کیونکہ گرفتاری کے بعد ان کے شناختی کارڈ تھانوں یا عدالتوں میں جمع ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ ووٹ کاسٹ کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ اس مرتبہ محض سینٹرل جیل کراچی سے 137 قیدیوں نے الیکشن کمیشن کو ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے درخواستیں لکھی تھیں۔ جس پر ان قیدیوں کو جیل میں پوسٹل بیلٹ پیپر بھیجے گئے۔ اس کے علاوہ سندھ بھر کی جیلوں میں بند 20 ہزار قیدی الیکشن میں ووٹ کاسٹ کرنے سے محروم ہوگئے ہیں۔

معروف قانون دان جسٹس (ر) بیرسٹر خواجہ نوید احمد نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ تمام پارٹیوں کے سربراہوں کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر الیکشن کمیشن سے مطالبہ کریں کہ تمام قیدیوں کو بیلٹ پیپر بھیجے جائیں۔ کیونکہ ایک بہت بڑا طبقہ جیل میں بند ہے۔ مثال کے طور پر سینٹرل جیل کراچی میں 5 ہزار سے زائد قیدی ہیں۔ جو تمام عاقل و بالغ اور ووٹر لسٹ میں بھی ان کے نام موجود ہیں۔ وہ ووٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔ اگر قیدی ووٹ کاسٹ نہیں کریں گے تو ہر سیاسی پارٹی کا نقصان ہوگا۔ اس طرح ووٹرز کی بہت بڑی تعداد حق رائے دہی سے محروم ہوجائے گی۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ قیدیوں کے پاس درخواست کی سہولت اور ذریعے نہیں ہوتے۔ جس سے ان کی درخواست الیکشن کمیشن تک نہیں پہنچ پاتی۔ قیدیوں کے ساتھ رعایتی سلوک کیا جائے اور انہیں ووٹ کاسٹ کرنے کا حق دیا جائے۔ جو بہت ضروری ہے۔