علی جبران:
عام انتخابات میں بدترین شکست کے بعد تھکے ہارے پرویز خٹک واپس اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔ ویسے تو پرویز خٹک کا آبائی ضلع نوشہرہ ہے، لیکن وہ پچھلے کافی عرصے سے اہل خانہ کے ہمراہ وفاقی دارالحکومت میں رہائش پذیر ہیں۔
آٹھ فروری کے جنرل الیکشن پرویز خٹک کے لئے ایک ڈرائونا خواب ثابت ہوئے ہیں۔ ان انتخابات میں ان سمیت خاندان کے دیگر لوگ بری طرح ہارے اور ان کی نوزائیدہ پارٹی ’’تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز‘‘ کے اہم رہنمائوں کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پرویز خٹک کی پارٹی کا صرف ایک رکن پشاور سے صوبائی کی سیٹ نکالنے میں کامیاب ہوسکا۔ اس بدترین شکست پر پرویز خٹک بہت افسردہ ہیں۔ وہ اتنی خاموشی کے ساتھ نو فروری کی رات اپنے کنبے کے ساتھ واپس اسلام آباد پہنچے کہ میڈیا کو بھی بھنک نہ پڑسکی۔
الیکشن لڑنے کے لئے وہ اپنی ساری فیملی کے ہمراہ خیبرپختونخوا گئے ہوئے تھے۔ ان کے ایک انتہائی قریبی ساتھی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ خیبرپختونخوا کے ضلع نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے پرویز خٹک نے پچھلے چند برس سے اسلام آباد کو اپنا مسکن بنا رکھا ہے۔ عام انتخابات سے پہلے وہ اپنی انتخابی مہم چلانے کے لئے پوری فیملی کے ہمراہ نوشہرہ چلے گئے تھے۔ کیونکہ الیکشن میں وہ خود، ان کے دو بیٹے اور داماد بھی حصہ لے رہے تھے۔ گزشتہ برس پرویز خٹک کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا تھا۔
قریبی ساتھی کے مطابق اب وہ اپنے دو بیٹوں اور بہوئوں کے ہمراہ اسلام آباد کے ایک فارم ہائوس میں رہائش پذیر ہیں۔ سی ڈی اے کی آرچرڈ فارم ہائوس اسکیم میں واقع یہ وسیع و عریض رہائش گاہ انہوں نے کرائے پر لے رکھی ہے۔ قریبی ساتھی نے بتایا کہ پرویز خٹک کو اگرچہ بہت بڑی کامیابی کی امید تو نہیں تھی، لیکن وہ اس قدر بدترین شکست کی توقع بھی نہیں کر رہے تھے۔ خیبرپختونخوا کے حلقوں میں یہ بات عام تھی کہ ضلعی انتظامیہ پرویز خٹک کی ہدایت پر چل رہی تھی۔ تاہم اس قدر ’’فری ہینڈ‘‘ کے باوجود بھی وہ الیکشن میں مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکے۔ حالانکہ ان کا دعویٰ تھا کہ صوبے کا اگلا وزیراعلیٰ ان کی نوزائیدہ پارٹی کا ہوگا۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی کو خیرباد کہنے والے سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے عام انتخابات سے محض چھ ماہ قبل ’’تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز‘‘ کے نام سے اپنی الگ پارٹی تشکیل دی تھی۔ تاہم حالیہ جنرل الیکشن میں ان کی پارٹی پشاور سے صرف ایک صوبائی نشست جیت سکی ہے۔ کامیاب ہونے والے ان کی پارٹی کے یہ واحد امیدوار ارباب وسیم ہیں۔جبکہ پارٹی کی دیگر اعلیٰ قیادت اور خاندان کے مختلف افراد سمیت پرویز خٹک اپنی نشست بھی ہارگئے۔ ہارنے والوں میں ان کے علاوہ ان کے دو بیٹے اور داماد شامل ہیں۔
نوشہرہ میں پرویز خٹک نے قومی اسمبلی کی نشست این اے 33 سے الیکشن لڑا تاہم وہ پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار سید شاہ احد علی شاہ کے ہاتھوں شکست کھاگئے۔ این اے 34 کے حلقے میں انہوں نے اپنے داماد عمران خٹک کو اتارا تھا۔ وہ بھی ذوالفقار علی شاہ سے شکست کھاگئے۔ قومی اسمبلی کی سیٹ کے علاوہ پرویز خٹک نے صوبائی اسمبلی کی دو سیٹوں پر بھی الیکشن لڑا۔ لیکن یہاں بھی شکست ان کا مقدر بنی۔ وہ پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں خلیق الرحمان اور اشفاق احمد سے پی کے 87 اور پی کے 88 پر ہارگئے۔ ان میں سے ایک سیٹ پر وہ صرف نو ہزار نو ووٹ لے سکے۔
اسی طرح پرویز خٹک کے داماد عمران خٹک کو بھی صوبائی اسمبلی کی سیٹ پی کے 89 سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پرویز خٹک نے اپنے دو بیٹوں اسماعیل خٹک اور ابراہیم خٹک کو صوبائی سیٹوں پر الیکشن لڑایا۔ دونوں بالترتیب پی کے85 اور پی کے 86 پر شکست کھاگئے۔ یہ ساری انتخابی ناکامیاں پرویز خٹک اور ان کے قریبی عزیزوں کو اپنے آبائی ضلع نوشہرہ میں ہوئیں۔ یوں خیبرپختونخوا کے اس اہم ضلع سے بظاہر ان کی سیاسی اجارہ داری کا خاتمہ ہوگیا ہے۔
آٹھ فروری کے انتخابات میں جہاں پرویز خٹک اور ان کی فیملی کے ارکان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، وہیں ان کی نوزائیدہ پارٹی کے دیگر اہم رہنمائوں کے حصے میں بھی ناکامی آئی۔ ان میں سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان سرفہرست ہیں۔ وہ بھی اپنے آبائی حلقے سے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی ایک ایک نشست پر ہارے۔ وہ این اے 4 اور پی کے 10 سے الیکشن لڑ رہے تھے۔