عمران خان:
ملک میں مشکوک ترسیلات زر کے ذریعے منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری میں ملوث افراد کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیوں کی تیاری شروع کردی گئی ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں زیر التوا رپورٹوں پر عملی کارروائیوں کے لئے ایف بی آر کے ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کے افسران اور اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے افسران کی مشترکہ ٹیمیں قائم کردی گئیں۔ دونوں شعبوں کے درمیان ان کے قیام کے 14برس کے بعد انتہائی تاخیر کے بعد یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔
دستیاب معلومات کے مطابق گزشتہ دنوں ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز کے تحت ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹیلی جنس اینڈ انویستی گیشن اور اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے اشتراک سے تربیتی کورسز کا انعقاد کیا گیا۔ یہ پروگرام برطانوی سفارت خانے کے تعاون سے کیا گیا تھا۔ اس میں ایف بی آر انٹیلی جنس کے ملک بھر سے تفتیشی افسران نے شرکت کی، جن کے پاس اس وقت سینکڑوں کی تعداد میں اربوں روپے کے منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری اور مشکوک ترسیلات زر کے کیس زیر تفتیش ہیں۔ پروگرام میں چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو ملک امجد زبیر ٹوانہ، ایف ایم یو کی ڈائریکٹر جنرل لبنیٰ فاروق کے علاوہ برٹش ہائی کمشنر لیوس ایونز نے شرکت کی۔
ذرائع کے بقول اس وقت اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ سے اربوں روپے کی مشکوک بینک ٹرانزیکشنز کی درجنوں رپورٹوں پر تحقیقات ایف بی آر میں التوا کا شکار ہے۔ جس کی وجہ سے رقوم کی مشکوک منتقلی، ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کی جانب سے پاکستان کے تمام نجی بینکوں کے کھاتے داروں کے بینک اکائونٹس میں آنے اور جانے والی رقوم پر نظر رکھی جاتی ہے اور رقوم کی مشکوک منتقلی کی رپورٹیں ایک طے شدہ نظام کے تحت تحقیقات کے لئے ایف بی آر کے ڈائریکٹو ریٹ جنرل انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو کے علاوہ ایف آئی اے، نیب اوراینٹی نارکوٹیکس فورس کے حکام کو بھیجی جاتی ہیں۔ نجی بینکوں کی تمام برانچوں کے افسران پابند ہوتے ہیں کہ وہ ایک خاص حد تے زیادہ کیش جمع کروانے والے اور نکلوانے والے یا کسی دوسرے کھاتے دار کو منتقل کرنے والے شہریوں سے ان کی آمدنی کے ذرائع اور ٹرانزیکشنز کی وجوہات کے دستاویزی ثبوت منسلک کرکے اپنی روپورٹیں یومیہ بنیادوں پر بینکوں کے ہیڈ کوارٹررز کو ارسال کریں۔
ذرائع کے بقول اسٹیٹ بینک کے فنانشنل مانیٹرنگ یونٹ میں نجی بینکوں کے کھاتے داروں کے بینک اکائونٹس میں آنے اور جانے والی رقوم کی ٹرانزیکشنز کے موصول ہونے والی Cash Transaction Reports (CTR کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ میں بیٹھے ہوئے افسران اس کا تعین کرتے ہیں کہ کونسی Cash Transaction Reports (CTR کی رپورٹ ممکنہ طور پر منشیات سے کمائے ہوئی رقم کی ہوسکتی ہے۔ یا پھر ٹیکس چوری،کالے دھن اور کرپشن سے کمائی ہوئی دولت کی ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد اس کیش ٹرانزیکشن رپورٹ یعنی سی ٹی آر کو دوسرے مرحلے میں ایس ٹی آر یعنی Suspicious. Transaction Reports کا درجہ دے کر متعلقہ اداروں کو ارسال کردیا جاتا ہے۔
یہ رپورٹ اگر آمدنی سے زائد اثاثوں، ٹیکس چوری یا منی لانڈرنگ سے متعلق ہوتو اس کو ایف بی آر اور ایف آئی اے کو بھیجا جاتا ہے۔ اگر یہ رپورٹ ممکنہ طور پر منشیات کی اسمگلنگ کے حوالے سے ہوتو اس کو اینٹی نارکوٹکس فورس کو بھیجا جاتا ہے جبکہ کالے دھن اور کرپشن سے متعلق رپورٹوں کو اس کو نیب حکام کے پاس بھیجا جاتا ہے۔
اطلاعات کے مطابق زیادہ تعداد میں (Suspicious. Transaction Reports) ایس ٹی آر ( STRs) ایف بی آر کے آئی اینڈآئی ڈائریکٹوریٹ جنرل کو اسلام آباد میں ارسال کی جاتی ہیں۔ جہاں سے ان رپورٹوں کو ان آئی اینڈ آئی ان لینڈ ریونیو کے سندھ، پنجاب، اسلام آباد، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے متعلقہ زونل ڈائریکٹو ریٹس کو ارسال کردیا جاتا ہے۔ تاکہ ان پر مزید تحقیقات کی جاسکیں۔
ذرائع کے مطابق اس وقت بھی ایف بی آر کے انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو میں سینکڑوںSuspicious. Transaction Reports تحقیقات کے لئے موجود ہیں۔ تاہم ان پر تحقیقات کی رفتار اس قدر سست ہیں کہ مزید کئی مہینے اور سال درکار ہیں کہ انہیں نتیجہ خیز بنایا جاسکے۔
ذرائع کے بقول گزشتہ عرصہ میں اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کی جانب سے مذکورہ بالا اداروں کو ایس ٹی آرز ارسال کرنے کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اسی دوران کئی مزدوروں اور غریب شہریوں کے بینک اکائونٹس میں کروڑوں روپے کی ٹرانزیکشنز کا بھی انکشاف ہوا، جس میں فیکٹری ورکز، فالودہ فروش، چاٹ فروش اور رکشہ ڈرائیور وغیرہ شامل رہے۔
گزشتہ عرصہ میں پاکستان کے نجی بینکوں کے کھاتے داروں کی جانب سے کی جانے والی کی جانے والی رقوم کی منتقلیوں پر مانیٹرنگ تو سخت کردی گئی۔ تاہم بعض مقامات پر ابھی بھی سقم اور نااہلی کا عنصر موجود ہے جس میں بینکوں کی جانب سے مشکوک ترسیلات زر کی رپورٹیں بروقت رپورت نہ کرنا، انہیں رشوت کے عوض دبا دینا وغیرہ شامل ہے۔ کیونکہ بینکوں کے لئے ان کے کلائنٹ اہم ہوتے ہیں اور بینک افسران اپنے ذاتی فائدے اور بینک انتظامیہ مجموعی بزنس کی وجہ سے اکثر واقعات کی چشم پوشی کرجاتے ہیں۔ جبکہ جو رپورٹیں ایف ایم یو کو مل بھی جاتی ہیں ان کی چھان بین اور پھر آگے تحقیقاتی اداروں کو بھیجنے میں مہینوں لگ جاتے ہیں۔
اگر تحقیقاتی اداروں کو یہ رپورٹیں مزید تفتیش کے لئے مل بھی جائیں تو برسوں انکوائری کا سلسلہ ہی چلتا رہتا ہے جب تک منی ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کرنے والے تمام ثبوت مٹاچکے ہوتے ہیں یا بیرون ملک نکل چکے ہوتے۔ جس کا نتیجہ یہی نکل رہا ہے کہ ان داروں میں خصوصی طور پر ایف بی آر آئی اینڈ آئی ان لینڈ ریونیو میں ان ایس سی ٹی آرز کی بھرمار ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ گزشتہ برسوں میں ایف بی آر انٹیلی جنس کے افسران کو منی لانڈرنگ اور فنانشنل کرائمز کی تفتیش کے حوالے سے جدید کورسز نہ کرانا بھی ہے کیونکہ یہ افسران ان کو روایتی انداز میں آگے بڑھاتے رہے۔ جبکہ موجودہ دور میں مالیاتی جرائم کی نوعیت بھی جدید ہوچکی ہے۔ یہی وجہ ہے اب اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ جبکہ مقتدرہ ادارے بھی اس حوالے سے ایف بی آر حکام کو اپنی سفارشات دے چکے ہیں۔