علی امین گنڈاپور کیخلاف تھانہ بھارہ کہو میں اسلحہ، شراب برآمدگی کا کیس درج ہے، فائل فوٹو
علی امین گنڈاپور کیخلاف تھانہ بھارہ کہو میں اسلحہ، شراب برآمدگی کا کیس درج ہے، فائل فوٹو

پی ٹی آئی کی کامیابی سے افغان مہاجرین میں خوشی کی لہر

محمد قاسم:
صوبہ خیبرپختون میں پی ٹی آئی سے وابستہ آزاد ممبران کی تعداد 87 تک پہنچ گئی ہے۔ جبکہ کسی پارٹی کے ساتھ شمولیت کے بعد زیادہ مخصوص نشستیں بھی پی ٹی آئی کے حصے میں آنے کا امکان ہے۔ جس کے بعد پی ٹی آئی کو صوبائی اسمبلی میں 2 تہائی سے بھی زیادہ اکثریت حاصل ہوجائے گی۔

پی ٹی آئی کی ممکنہ حکومت قائم ہونے سے افغان مہاجرین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور نگران حکومت میں جاری آپریشن روکے جانے کا امکان ہے۔ کیونکہ عمران خان نے افغان مہاجرین کے انخلا پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا اور انہیں بے دخل کرنے سے روکنے کی استدعا کی تھی۔

ذرائع کے مطابق افغان مہاجرین کو امید ہے کہ پی ٹی آئی حکومت ان کو بے دخل نہیںکری گی۔ انہیں ماضی کی طرح آزادیاں حاصل ہوں گی اور وہ کاروبار کر سکیں گے۔ ذرائع نے بتایا کہ کراچی، لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد سے لاکھوں مہاجرین خیبرپختون کا رخ کرسکتے ہیں۔ جس کی وجہ سے صوبے کے مالی حالات مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ جبکہ مقامی اداروں اور پی ٹی آئی کی ممکنہ صوبائی حکومت کے مابین کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے۔

افغان مہاجرین کی 31 مارچ 2024ء تک قیام میں توسیع کی گئی ہے اور نئی وفاقی حکومت کے قیام کے بعد تقریباً 14 لاکھ افغان مہاجرین کے حوالے سے فیصلہ کیا جائے گا۔ اگر نون لیگ کی حکومت بنتی ہے تو مہاجرین کے قیام میں مزید توسیع کا امکان ختم ہوجائے گا۔

قصہ خوانی میں جوتوں کا کاروبار کرنے والے ایک افغان تاجر نے ’’امت‘‘ کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کی اکثریت آنے سے افغان باشندے خوش ہیں اور انہیں امید ہے افغان باشندوں کو صوبے میں تنگ نہیں کیا جائے گا اور ان کے کاروبار پر بھی قبضہ نہیں کیا جائے گا۔

ایک اور افغان تاجر نے بتایا کہ افغان باشندوں نے عمران خان کی کامیابی کیلئے دعا کی تھی۔ لیکن ان کو بھرپور اکثریت نہیں ملی۔ جس کی وجہ سے افغانوں میں تشویش ہے کہ ایسا نہ ہو کہ رجسٹرڈ افغان باشندوں کو بھی ملک چھوڑنے کا کہہ دیا جائے۔ کیونکہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی سندھ اور پنجاب سے افغان مہاجرین کی واپسی چاہتی ہیں۔

دوسری جانب پشاور کے بڑے تاجروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مرکز میں نواز اور زرداری کی حکومت کے قیام سے کے پی میں تاجروں کو مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اس بار نواز شریف کی جانب سے 2013ء کی طرح صوبے کے ساتھ تعاون کا امکان نہیں اور ماضی کی طرح محاذ آرائی کا خدشہ ہے۔ اس سے صوبے کے کاروبار کو نقصان ہوگا۔ چوک یادگار میں الیکٹرونک دکان کے مالک حاجی طاہر کے مطابق افغان باشندوں کی واپسی سے کرایوں میں کمی آئی تھی اور مقامی لیبر کی اجرت میں اضافہ ہوا تھا۔ جبکہ جرائم میں بھی کمی واقع ہوئی تھی۔ اگر دوبارہ افغانوں کو اس صوبے میں آنے کی اجازت دی گئی تو سارا نظام بیٹھ سکتا ہے۔

ایک اور تاجر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گزشتہ 5 ماہ سے چوک یادگار میں حوالہ ہنڈی کا کاروبار بند ہے، دوبارہ اسے کھولنے کی اجازت دی تو اسمگلنگ پھر شروع ہوجائے گی اور مقامی مارکیٹ میں ایران، چین اور دیگر ممالک سے غیر قانونی سامان کی ترسیل کا آغاز ہوجائے گا۔ چوک یادگار، قصہ خوانی سمیت دیگر بازاروں میں افغان تاجروں نے مٹھائی تقسیم کی ہے کہ خیبرپختون میں پی ٹی آئی کو صوبائی حکومت ملنے سے ان کی پریشانیاں ختم ہوجائیں گی۔