اکبر بابر نے معاملہ الیکشن کمیشن لے جانے کا فیصلہ کر لیا، فائل فوٹو
 اکبر بابر نے معاملہ الیکشن کمیشن لے جانے کا فیصلہ کر لیا، فائل فوٹو

پی ٹی آئی کو نام سے بھی محروم ہونے کا خطرہ

امت رپورٹ :
اِدھر تحریک انصاف اپنی مخصوص نشستیں بچانے کے لئے مجلس وحدت المسملین میں شمولیت یا ضم ہونے کی تیاری کر رہی ہے، تو اُدھر اکبر ایس بابر نے دوبارہ الیکشن کمیشن جانے کے لئے کمر کس لی ہے۔ اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی اپنے نام سے بھی محروم ہوسکتی ہے۔ جو پہلے ہی اپنا انتخابی نشان ’’بلا‘‘ گنوا چکی ہے۔

واضح رہے کہ اپنے آزاد ارکان کو پارٹی کی شناخت دینے کیلئے تحریک انصاف نے فی الوقت مجلس وحدت المسملین کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاکہ وہ اقلیتی اور خواتین کی مخصوص نشستیں حاصل کرسکے۔ کیونکہ آزاد امیدواروں کے بل بوتے پر وہ قانونی و آئینی طور پر ایوان میں نہ قائمہ کمیٹیوں کا حصہ بن سکتی ہے اور نہ ہی مخصوص سیٹیں حاصل کر سکتی ہے۔

دوسرا اسے یہ چیلنج بھی درپیش ہے کہ اس کے آزاد امیدواروں پر اس وقت کوئی دوسری پارٹی جوائن کرنے میں کوئی آئینی و قانونی رکاوٹ نہیں ہے۔ اڑان بھرنے کا یہ سلسلہ شروع بھی ہو چکا ہے۔ جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے نتائج کا حتمی نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد آزاد امیدواروں کا تین دن کے اندر کسی بھی پارٹی کو جوائن کرنا آئینی تقاضا ہے۔ پی ٹی آئی کو خوف ہے کہ پارٹی کی چھتری سے محروم اس کے کئی آزاد ارکان اس عرصے کے دوران اپنی وفاداریاں تبدیل کر سکتے ہیں۔ چونکہ ایک اور انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کے لئے وقت کم ہے۔ چنانچہ ان تمام چیلیجز سے نمٹنے کے لئے تحریک انصاف نے یہ شارٹ کٹ راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا کہ فی الحال کسی دوسری پارٹی کا لباس پہن لیا جائے۔ لیکن یہ راستہ آسان نہیں، بہت پُر خطر ہے۔ اس کے نتیجے میں پہلے ہی اپنا انتخابی نشان کھو دینے والی پی ٹی آئی اب پارٹی کے نام سے بھی محروم ہو سکتی ہے۔

اگر پی ٹی آئی کسی دو سری پارٹی میں شامل یا ضم ہوتی ہے تو وہ اپنا نام، لیٹر پیڈ، پارٹی لوگو اور پارٹی دفاتر استعمال نہیں کرسکے گی۔ یہ سب کچھ اس پارٹی کا ہوگا جس میں وہ شمولیت اختیار کرے گی۔ ایسے میں کوئی گروپ پا پارٹی الیکشن کمیشن میں یہ درخواست ڈال دیتی ہے کہ اب اس نام کی کوئی سیاسی جماعت نہیں رہی اور یہ نام اسے رجسٹر کیا جائے تو پی ٹی آئی اپنے نام سے محروم ہو سکتی ہے۔

’’امت ‘‘ کے ذرائع کے مطابق ایسا ہی کچھ ہونے بھی جارہا ہے۔ تحریک انصاف کے باغی بانی رہنما اکبر ایس بابر نے اس حوالے سے پوری تیاری کر لی ہے۔ اب انہیں صرف اس چیزکا انتظار ہے کہ پی ٹی آئی کب کسی دوسری پارٹی یا مجلس وحدت المسلمین میں شمولیت کے فیصلے کو عملی جامہ پہناتی ہے۔ اس بارے میں انہوں نے ایک معنی خیز اور انتباہی ٹویٹ بھی کیا ہے، جس کا عنوان ہے ’’خودکشی حرام ہے‘‘۔

اپنی ٹویٹ میں انہوں نے کہا ہے ’’میڈیا اطلاعات کے مطابق جعلی انٹرا پارٹی الیکشن کے نتائج سے بچنے کے لئے ایک سیاسی اور قانونی فراڈ کی تیاری کی جارہی ہے۔ پی ٹی آئی کی خود ساختہ اور کالعدم قیادت کا نو منتخب آزاد ممبران کو کسی اور جماعت میں شمولیت کا ارادہ ہے۔ تاکہ ریزرو سیٹ حاصل کی جاسکیں۔ ایسا فیصلہ بلا گنوانے کے بعد پارٹی گنوانے کے مترادف ہو گا۔ پھر نہ کہنا خبر نہ ہوئی‘‘۔

’’امت‘‘ کے رابطہ کرنے پر اکبر ایس بابرکا کہنا تھا ’’کون سا قانون یہ اجازت دیتا ہے کہ آپ فرضی طور پر کسی اور پارٹی میں چلے جائیں۔ جبکہ میٹنگیں پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے کریں اور ہدایات عمران خان سے لیتے رہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے، جس کی تیاری پی ٹی آئی کر رہی ہے تو پھر ہم الیکشن کمیشن پاکستان میں ثابت کریں گے کہ سارا دو نمبر کام ہو رہا ہے۔ جو سراسر آئین و قانون سے مذاق کے مترادف ہے۔ اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے تمام نو منتخب ارکان ڈی سیٹ ہوسکتے ہیں۔ اس کے اور بھی خوفناک آئینی و قانونی پہلو ہیں‘‘۔ اس سوال پر کہ پی ٹی آئی اگر مجلس وحدت المسلمین میں شامل یا ضم ہوجاتی ہے تو اس میں قانونی قباحت کیا ہے؟

اکبرایس بابر کا کہنا تھا ’’کوئی قانونی قباحت نہیں۔ پی ٹی آئی یقیناً وحدت المسلمین سمیت کسی بھی پارٹی میں شامل یا ضم ہوسکتی ہے۔ لیکن پھر وہ پی ٹی آئی کا ٹائٹل استعمال نہیں کر سکے گی۔ وحدت المسلمین کی ہو کر رہ جائے گی۔ اس کا سربراہ بھی وحدت المسلمین کا ہوگا اور سارے نومنتخب ارکان وحدت المسلمین کے کہلائیں گے۔ نہ عمران خان بانی چیئر مین پی ٹی آئی کی حیثیت سے بیان جاری کر سکیں گے۔ نہ ان کے لوگ پی ٹی آئی کے دفاتر استعمال کر سکیں گے۔ نہ ان کی کور کمیٹی اور سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی باقی رہے گی۔ قصہ مختصر سب کچھ وحدت المسلمین کا ہوگا۔ یہی وہ موقع ہوگا کہ ہم الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کریں گے کہ اب پی ٹی آئی نام کی کوئی پارٹی نہیں رہی۔ لہذا یہ نام ہمیں رجسٹر کیا جائے۔ اب دیکھنا ہے کہ تحریک انصاف یہ سیاسی خود کشی کب کرتی ہے‘‘۔

یہ وہ صورتحال ہے جس میں اس وقت پی ٹی آئی پھنسی ہوئی ہے۔ وہ کسی دوسری پارٹی میں شامل یا ضم ہوتی ہے تو نام سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں اور نہیں ہوتی تو مخصوص نشستوں سے محروم ہو جائے گی۔ یعنی اس کے دونوں اطراف میں کھائی ہے۔ ایک دوسرا فوری مسئلہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کا ہے۔ آزاد امیدواروں کے ہوتے ہوئے پی ٹی آئی صوبے میں حکومت سازی سے قاصر ہے۔ اس کے لئے جماعت اسلامی کا کاندھا استعمال کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم جماعت اسلامی کے انکار کے بعد پی ٹی آئی کی کشتی منجدھار میں ہے۔

جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ اسے یہ قبول نہیں کہ مرکز میں وہ مجلس وحدت المسلمین کو اتحادی بنائے اور صوبے میں اسے اتحادی بنا لے۔ اس دوران یہ خبریں آئیں کہ جماعت اسلامی کے انکار کے بعد پی ٹی آئی نے اپنے باغی رہنما پرویز خٹک کی تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کا ایک رکن صوبائی اسمبلی کی نشست جیتا ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے اس خبر کی تردید آگئی۔ تاحال پی ٹی آئی کو کسی دوسری پارٹی کا ایسا رکن دستیاب نہیں جسے سیڑھی بناکر وہ خیبرپختونخوا میں صوبائی حکومت بناسکے۔ تلاش جاری ہے۔