درپیش چیلنجز کے پیش نظر نواز شریف بھی حکومت بنانے کیلیے راضی نہیں، فائل فوٹو
 درپیش چیلنجز کے پیش نظر نواز شریف بھی حکومت بنانے کیلیے راضی نہیں، فائل فوٹو

حکومت سازی کیلیے فضا سازگار نہ ہو سکی

نواز طاہر:
ملک کی دو بڑی بڑی سیاسی حریف جماعتوں مسلم لیگ ’’ن‘‘ اور پیپلزپارٹی کے درمیان شراکت اقتدار کا فارمولا طے نہ ہوسکا۔ پی پی ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی نون لیگ پر مکمل اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ کیونکہ نون لیگ نے انتخابی عمل کے دوران بھی پیپلز پارٹی کو شکست سے دوچار کرنے کی غرض سے اقدامات اٹھائے۔ خصوصاً سندھ میں مشکلات پیدا کرنے کی کوششیں کیں اور اب بھی مرکز کے علاوہ پنجاب میں بھی بی نہیں بلکہ ’’سی‘‘ ٹیم بنانا چاہتی ہے۔

دوسری طرف لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ خود بھی مرکزی حکومت بنانے میں ڈانواں ڈول ہے۔ ظاہری طور پر اگرچہ وزارت عظمیٰ کیلئے میاں شہباز شریف کا اعلان کیا گیا ہے۔ مگر میاں نواز شریف درپیش صورتحال اور مستقبل میں ملک اور نئی حکومت کو پیش آنے والے چیلنجز کے پیش نظر حکومت بنانے کیلئے راضی نہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ صرف پنجاب اور بلوچستان میں حکومت بنائی جائے۔ تاہم ذرائع اس تاثر کی نفی کرتے ہیں کہ نواز شریف، میاں شہباز شریف کو وزیراعظم بننے پر خوش نہیں۔

ادھر پیپلزپارٹی کے ذرائع نے تصدیق کی کہ پارٹی مرکز میں حکومت سازی کیلئے مسلم لیگ ن سے اس لیے تعاون کر رہی ہے کہ ملک سیاسی انتشار کا شکار نہ ہو۔ انتخابی نتائج نے ملک کو ایک دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے اور صورتحال کم و بیش ستّر کی دہائی جیسی ہو چکی ہے۔ واضح رہے کہ ایک ہفتہ قبل ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا تھا کہ مرکزی کابینہ میں سابق اتحادی حکومت جیسے چہرے نظر آئیں گے۔ لیکن اس کے بعد پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے جو تاثر دیا۔ اس سے ممکنہ طور پر اب کوئی دوسری تبدیلی آسکتی ہے اور شاید وہ خود کابینہ میں شامل نہیں ہوں گے۔ البتہ پنجاب حکومت میں وہ جنوبی پنجاب سے منتخب اراکین کو کوئی قابل ذکر وزارت دیئے جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔

اسی دوران جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے نوانی گروپ کی طرف سے نون لیگ میں شمولیت کے اعلان کے بعد اپنے قریبی حلقوں میں یہ تاثر دیا ہے کہ ممکنہ طور پر بھکر ضلع کو صوبائی کابینہ میں نمائندگی دی جائے گی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پنجاب میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے ایسے امیدوار بھی الیکشن ہار گئے جو ماضی میں مشکل ترین حالات میں بھی شکست سے دوچار نہیں ہوئے تھے۔ اس طرح کچھ الیکٹ ایبلز بھی بری طرح شکست سے دوچار ہوئے۔ کیونکہ اس الیکشن میں ترقیاتی کام نظرانداز کردیے گئے اور ووٹرز کے رجحان کی لہر کی نذر ہو گئے۔

جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک سابق وزیر نے بتایا کہ ووٹرز نے ہمارے ترقیاتی کاموں کو نظرانداز کردیا۔ جبکہ ان کے بڑے تو اب ان نتائج پر پچھتا رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ علاقے کی ترقی کو خدمات پر فوقیت دی جاتی ہے اور اب جاری ترقیاتی منصوبے متاثر ہو سکتے ہیں۔ جبکہ ترقیاتی کام کسی صورت نہیں رکنے چاہئیں۔ لیکن ان کے متاثر ہونے کی وجہ یہ بنے گی کہ جو نئے لوگ منتخب ہوئے ہیں۔ انہیں ترقیاتی منصوبوں کی اسکیم بنانے اور ان پر عملدرآمد کروانے کے طریق کار کا تجربہ نہیں۔ بلکہ یہ لوگ اسمبلی میں اپنے حلقے کی نمائندگی کے بجائے شوروغل کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور جس طرح اس وقت احتجاج کیا جارہا ہے۔ یہ احتجاج آئندہ اسمبلیوں کے اندر بھی نظر آرہا ہے۔

ادھر پی ٹی آئی ذرائع کا کہنا ہے کہ انتخابی نتائج پر تمام سیاسی جماعتیں اس کے موقف کی تائید کر رہی ہیں اور پورا ملک جام ہے۔ اس کے برعکس ’’امت‘‘ کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ نون لیگ کا موقف کمشنر راولپنڈی کے بارے میں حقائق کے قریب ہے۔ ذرائع کے مطابق کمشنر راولپنڈی کو پی ٹی آئی کی طرف سے اگلے الیکشن کیلئے ٹکٹ اور اپوزیشن کی یقین دہانی کرائی گئی تھی اور وہ ایک ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔ جو الیکشن کمیشن کی تحقیقات میں واضح ہو جائے گا۔