کراچی میں میچز ہونے پر شاید کاروبار چمک اٹھے، فائل فوٹو
 کراچی میں میچز ہونے پر شاید کاروبار چمک اٹھے، فائل فوٹو

سیاسی تنائو اور مہنگائی نے کرکٹ بخار کو ٹھنڈا کردیا

اقبال اعوان:
سیاسی تنائو اور مہنگائی نے شہریوں کا کرکٹ بخارکو ٹھنڈا کر دیا۔ پی ایس ایل نائن کے حوالے سے کراچی میں بھی شہری پرجوش نظر نہیں آرہے۔ ورلڈ کپ کے بعد پی ایس ایل سیزن بھی زیادہ کارآمد نہیں ہوگا۔ مختلف ٹیموں کی ٹی شرٹس اور کیپس کے علاوہ بلا، گیند سمیت کرکٹ کی اشیا زیادہ فروخت نہیں ہو رہی۔

ایم اے جناح روڈ پر واقع اسپورٹس مارکیٹ کی رونقیں بحال نہیں ہو سکیں۔ واضح رہے کہ پی ایس ایل نائن کا آغاز ہو چکا ہے۔ اسلام آباد، کراچی، ملتان، کوئٹہ، لاہور اور پشاور کی ٹیمیں ایونٹ میں کھیل رہی ہیں۔ ماضی میں ورلڈکپ ہو یا پی ایس ایل۔ کراچی میں گلی، گلی، میدان، سڑکوں پر کرکٹ میچوں کا بھی سلسلہ بڑھ جاتا تھا۔ شہری بالخصوص کم عمر لڑکے، نوجوان زیادہ پُرجوش نظر آتے تھے۔ ٹیموں کی جرسی پہن کر میچ کھیلتے تھے یا بڑی بڑی لگائی جانے والی اسکرینوں پر میچ دیکھ کر انجوائے کرتے تھے۔

اس طرح ہوٹل والوں کا کاروبار بھی چمک اٹھتا تھا یا پارکوں، ریستورانوں کے باہر اسکرین پر میچ دیکھا جاتا تھا۔ تاہم ایسے وقت میں جب کرکٹ ورلڈ کپ ابھی گزرا ہے۔ لیکن پی ایس ایل میں زیادہ جوش و خروش نظر نہیں آرہا۔ کیونکہ اس وقت سیاسی تنائو چل رہا ہے۔

شہریوں کی نظریں سیاست دانوں کے توڑ جوڑ پر لگی ہیں۔ ایسے میں پی ایس ایل 9 کا آغاز ہو چکا ہے لیکن رونق زیادہ نہیں۔ ابھی پنجاب کے اسٹیڈیم میں میچ ہو رہے ہیں۔ اس کے بعد کراچی نیشنل اسٹیڈیم میں میچز ہوں گے۔ کراچی میں اس حوالے سے کوئی جوش و خروش نظر نہیں آرہا۔

میچ کی کمنٹری سننے کے بجائے اکثر لوگ خبریں سن رہے ہیں کہ ملک میں کیا ہوگا۔ دوسری جانب گلی کوچوں، میدانوں، سڑکوں، چورنگیوں پر کرکٹ کھیلنے کا بھی سلسلہ بہت کم ہوگیا ہے۔ ایم اے جناح روڈ پر واقع اسپورٹس مارکیٹ کے دکانداروں کا کہنا ہے کہ پی ایس ایل سیزن بھی ہلکا گزر رہا ہے۔ پی ایس ایل کھیلنے والی ٹیموں کی جرسیاں، بیٹ، بال، مختلف اقسام کی وکٹیں اور دیگر کرکٹ کا سامان بہت کم فروخت ہو رہا ہے۔

دراصل پی ایس ایل ایسے سیزن میں آیا ہے کہ سیاسی تنائو بہت زیادہ ہے اور اس گیم کو اہمیت نہیں دی جارہی۔ جبکہ ہول سیل مارکیٹ سے بلوچستان، سندھ میں بھی کرکٹ کا سامان جاتا ہے، جو اس وقت بہت کم جارہا ہے۔ پہلے کسی ایونٹ پر کراچی میں کروڑوں روپے کا سیزن لگتا تھا۔ کرکٹ ٹیموں کی ٹی شرٹ جرسی جو 5 سال قبل 500 روپے کی تھی۔ اب چار گنا مہنگی یعنی 2 ہزار سے زائد روپے کی ہو چکی ہے۔ جبکہ لوکل، کم معیار لی ٹی شرٹس بھی ہزار روپے تک کی آرہی ہے۔ اس طرح کرکٹر کی کیپ، ٹرائوزر، بیٹ، بال، دیگر سامان بھی مہنگا ہو چکا ہے۔

دکاندار رفیق کا کہنا تھا کہ تاجروں نے ٹی شرٹس و جرسیاں زیادہ نہیں بنوائی ہیں کہ فروخت نہیں ہوتیں۔ ورلڈ کپ میں شریک ٹیموں کی ٹی شرٹس اور جرسیوں اب بھی فروخت نہ ہونے پر موجود ہیں۔ جبکہ ہر ورلڈکپ یا پی ایس ایل میں جرسیاں، ٹی شرٹس تبدیل ہوجاتی ہیں۔ جس سے نقصان ہوتا ہے۔

رفیق نے کہا کہ فٹ بال ورلڈ کپ کا سیزن کچھ نہ کچھ منافع دے گیا تھا۔ لیکن کرکٹ کا بخار کم ہوتا جارہا ہے۔ دکاندار عاطف کا کہنا ہے کہ زیادہ تر ٹی شرٹس، کیپ فروخت ہوتی تھیں۔ لیکن اب ٹھنڈ لگی ہوئی ہے۔ کراچی میں میچز شروع ہوئے تو شاید ان کا کاروبار چمک اٹھے کہ کرکٹ کے شوقین اسٹیڈیم جانے کیلئے ٹی شرٹس اور کیپ خریدتے ہیں۔ لیکن ابھی تک جوش و خروش نظر نہیں آرہا۔