پی ڈی ایم ٹو ۔۔۔ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

سجاد عباسی

کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
کے مصداق منگل کی نصف شب کو مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے اتحادی حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا ،جسے قیام سے پہلے ہی "پی ڈی ایم ٹو "کا نام دے دیا گیا تھا۔۔

اتحادی حکومت کے اعلان کے ساتھ یہ بتا دیا گیا ہے کہ آئندہ صدر آصف علی زرداری ہوں گے اور وزیراعظم شہباز شریف۔۔۔

اس طرح قوم کو نواز دو کا نعرہ "قوم کو شہباز دو ” کی شکل اختیار کر گیا جس کی بات ہم نے پہلی بھی کی تھی ۔۔یعنی الیکشن سے پہلے ہی اس بات کے آثار نمایاں ہو گئے تھے کہ وزیراعظم نواز شریف نہیں بلکہ شہباز شریف ہوں گے۔۔

شراکت اقتدار کے فارمولے پر اتفاق کے اعلان سے پہلے پی پی اور نواز لیگ کے درمیان جو طویل کشمکش جاری رہی وہ اب ریکارڈ کا حصہ ہے۔۔ اس دوران پیپلز پارٹی اپنا بھاؤ بڑھانے کے لیے بھاری بھرکم مطالبات کے ساتھ مذاکرات کرتی رہی ،جس میں پہلی ٹرم کے لیے بلاول بھٹو کو وزیراعظم بنانے کے علاوہ متبادل پیکیج کے طور پر صدر، چیئرمین سینٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی سمیت چاروں صوبوں میں گورنر کے عہدے حاصل کرنا بھی شامل تھا۔

کہا جاتاہے کہ مذاکرات میں آصف علی زرداری نے دانستہ بلاول بھٹو کو آگے رکھا جن کا اصرار تھا کہ ان کی پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے انہیں وزیراعظم نامزد کر رکھا ہے لہذا پہلی ٹرم کے لیے یعنی دو یا تین سال کے لیے انہیں وزیراعظم مقرر کیا جائے، بصورت دیگر ،یعنی شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کی صورت میں وہ وفاق میں وزارتیں لینے کو تیار نہیں تھے تاکہ مشکل اور ناپسندیدہ فیصلوں کا بوجھ نواز لیگ پر رہے اور وہ 16 ماہ کی پی ڈی ایم حکومت کی طرح ہاتھ جھاڑ کر یہ کہہ سکیں کہ سارا کیا دھرا نواز لیگ کا ہے۔

دوسری طرف نواز لیگ اکیلے یہ بوجھ اٹھانے کے لیے ہرگز تیار نہ تھی۔۔ اب تک یہی کہا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ میں شراکت دار نہیں بنے گی ،مگر امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آگے چل کر پی پی وزارتیں قبول کر سکتی ہے اور ممکن ہے کہ وزارت داخلہ سمیت کچھ بھاری بھرکم وزارتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔۔

ویسے دیکھا جائے تو آصف علی زرداری کو دوبارہ صدر بنانے اور چیئرمین سینٹ سمیت پنجاب کی گورنرشپ حاصل کرنا پی پی کی بڑی کامیابی ہے۔۔ سندھ میں تو ویسے بھی اس کی بلا شرکت غیرے حکومت ہوگی۔۔اسی طرح بلوچستان میں بھی پیپلز پارٹی برابر کی حصہ دار ہوگی بلکہ وزیراعلی بھی ان کا ہوگا۔

لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ طویل کشمکش اور بارہا ڈیڈ لاک پیدا ہونے کے بعد نصف شب کو اچانک دونوں جماعتیں شراکت اقتدار کے فارمولے پر کیسے راضی ہو گئیں؟

اس حوالے سے واقفان حال کا کہنا ہے کہ اس کے پیچھے مقتدر حلقوں کا یہ انتباہ کار فرما تھا کہ اگر اگلے 24 گھنٹے کے اندر اندر دونوں جماعتیں حکومت سازی کا فارمولا طے نہ کر سکیں تو کھیل ان کے ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔۔

ظاہر ہے کہ آئین کے اندر اس کی پروویژن موجود ہے کہ حکومت سازی کتنی مدت کے اندر کی جا سکتی ہے۔ ایک درخواست پہلے سے سپریم کورٹ میں دائر کی جا چکی تھی کہ انتخابی نتائج کو کالعدم قرار دیا جائے جسے بدھ کے روز عدالت عظمیٰ نے خارج کر دیا مگر اس دوران کوئی اور درخواست بھی دائر کی جا سکتی تھی کہ چونکہ کسی جماعت کو واضح اکثریت نہیں ملی لہذاٰ نگراں حکومت کو چلنے دیا جائے۔۔یا پھر اگر عدالت ری الیکشن جیسا کوئی فیصلہ بھی کرتی تو گیند نگراں حکومت کے کورٹ میں ہی رہتا کہ آیا نئے الیکشن کے لیے درکار فنڈ موجود ہیں یا نہیں۔ تو اس طرح کے کئی مسائل پیدا ہو سکتے تھے۔۔ بہرحال دیر آید درست آید کے مصداق دونوں جماعتوں نے حکومت سازی پر اتفاق کر لیا۔۔

اس بات پر تو سیاسی مبصرین متفق ہیں کہ دونوں جماعتوں پر کسی اتفاق رائے پر پہنچنے کے لیے تیسری قوت کا دباؤ موجود تھا۔۔ اس دباؤ کا اثر پریس کانفرنس کے دوران دونوں جماعتوں کی قیادت کی باڈی لینگویج سے بھی ظاہر ہو رہا تھا ورنہ چند گھنٹے پہلے تک بلاول بھٹو اس بات پر مصر تھے کہ وہ اپنی شرائط پر معاہدہ کریں گے۔

نادیدہ قوتوں کے دباؤ کی جھلک گزشتہ روز سینٹ میں مشاہد حسین کی تقریر کی گونج کی صورت میں بھی دیکھی گئی جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگرچہ وہ نواز لیگ کے سینٹر ہیں مگر ان کی اصل پارٹی وہی ہے جس کی مستقل حکومت رہتی ہے ۔مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ قوم نے تحریک انصاف کو مینڈیٹ دے کر اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔۔ کسی جماعت کے پاس اکثریت نہیں ہے۔انہوں نے تجویز دی کہ نواز شریف آگے بڑھیں اور عمران خان سے ہاتھ ملائیں ۔ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے اور سب مل جل کر حکومت چلائیں بلکہ ایک طرح سے انہوں نے عام معافی کی بھی تجویز دی ۔
انہوں نے خبردار کیا کہ فی الوقت سیاست دانوں کے پاس انیشیٹو موجود ہے لہذا اس کا فائدہ اٹھائیں ورنہ تمام راستے جی ایچ کیو کی طرف جاتے ہیں ۔۔ایسا نہ ہو کہ کسی کے ہاتھ میں کچھ باقی نہ بچے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ مشاہدحسین کی تقریر اس سوچ کی عکاسی کرتی ہے جس کے تحت دونوں بڑی جماعتوں کو شراکت اقتدار کا فارمولا طے کرنے کے لیے مبینہ طور پر مختصر مہلت دی گئی تھی۔۔

اب چونکہ آصف علی زرداری پانچ برس کے لیے صدر بننے جا رہے ہیں تو عین ممکن ہے کہ وہ پی ٹی آئی کو بھی آگے چل کر حکومت کا حصہ بنا دیں یا کم از کم عمران خان کی رہائی اور سنگین مقدمات میں ملوث تحریک انصاف کے کارکنوں اور رہنماؤں کے ریلیف کی صورت میں کوئی بڑی پیشرفت سامنے آ سکے۔

کیونکہ اگر اس اتحادی حکومت کو اسموتھلی آگے چلانا ہے تو ضروری ہے کہ تحریک انصاف کو کسی نہ کسی طرح جمہوری عمل کا حصہ بنایا جائے ،چاہے وہ ایک تعمیری اپوزیشن کا کردار ہی ادا کرے۔۔دوسری صورت میں سیاسی عدم استحکام معاملات کو آگے نہیں بڑھنے دے گا۔۔

یہ بات پہلے سے دکھائی دے رہی تھی کہ اگر سادہ اکثریت کے بغیر کوئی مخلوط حکومت بنتی ہے تو اسے تین بڑے چیلنجز کا سامنا ہوگا۔

نمبر ایک اس پر "لاڈلا پلس ” کی چھاپ ہوگی اور اب تو دھاندلی کا الزام الگ سے تلوار کی طرح سر پر لٹکتا رہے گا۔۔
نمبر دو اسے اتحادیوں کی بے ساکھیوں کے باعث مطالبات، دباؤ اور بلیک میلنگ کا سامنا رہے گا۔۔

نمبر تین ایک مضبوط اور جارحانہ اپوزیشن اس کے ناک میں دم کیے رکھے گی۔۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والی حکومت ان چیلنجز سے کس طرح نبرد آزما ہوتی ہے۔۔