کراچی کی مختلف جیلوں سے روزانہ ایک ہزار سے زائد قیدی پیشی پر لائے جاتے ہیں، فائل فوٹو
کراچی کی مختلف جیلوں سے روزانہ ایک ہزار سے زائد قیدی پیشی پر لائے جاتے ہیں، فائل فوٹو

سٹی کورٹ قیدیوں کیلیے ’’خالہ جی کا گھر‘‘ بن گیا

سید حسن شاہ :
کراچی سٹی کورٹ میں رشوت وصولی پر سہولیات فراہمی اور قیدیوں کے فرار ہونے کے واقعات سے سیکورٹی خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ رشوت کے عوض پیشیوں پر آئے ہوئے قیدیوں کو موبائل فون پر گھنٹوں بات چیت کی سہولت، مرضی کی جگہوں پر بیٹھنے، کھانے پینے اور غیر متعلقہ افراد سے ملاقات سمیت دیگر سہولیات دی جاتی ہیں۔

رشوت کی ادائیگی نہ کرنے والوں کو متعلقہ عدالت میں پیشی کے بعد لاک اپ ( بخشی خانے ) میں بند کردیا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں، کالعدم تنظیموں کے خطرناک اور کئی مقدمات میں نامزد 150 سے زائد ہائی پروفائل قیدی بھی ان سہولیات سے استفادہ کرتے ہیں۔ پولیس اہلکاروں کی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے دہشت گردی سمیت مختلف مقدمات میں گرفتار 11 قیدی سٹی کورٹ سے فرار ہوچکے ہیں۔ جبکہ غفلت اور لاپرواہی برتنے پر 13 افسران و اہلکار گرفتار بھی کیے جاچکے ہیں۔

سٹی کورٹ میں سینٹرل جیل، لانڈھی جیل، خواتین اور بچہ جیلوں سے روزانہ کی بنیاد پر تقریباً ایک ہزار قیدیوں کو پیشی کے لئے لایا جاتا ہے جن میں سینٹرل جیل کے450، لانڈھی جیل کے350، ہائی پروفائل 150، خواتین جیل کی20، بچہ جیل کے50 قیدی پیشی کے لئے لائے جاتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ سیاسی جماعتوں اور کالعدم تنظیموں کے خطرناک 150 سے زائد ہائی پروفائل قیدیوں کو بھی جیلوں سے لایا جاتا ہے۔

قیدیوں کو جیل وین اور دیگر گاڑیوں میں جیلوں سے سٹی کورٹ کے لاک اپ (بخشی خانہ) میں لایا جاتا ہے۔ لاک اپ کے گراؤنڈ فلور پر مذکورہ گاڑیوں کی پارکنگ بنائی گئی ہے جہاں سے قیدیوں کو گاڑیوں سے نکال کر انٹری کی جاتی ہے، انٹری ہونے کے بعد قیدیوں کو بخشی کے فرسٹ فلور پر بنے ہوئے لاک اپ میں بند کردیا جاتا ہے۔ قیدی جیلوں سے آتے ہیں تو ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑی بندھی ہوتی ہے جنہیں لاک اپ میں کھول کر 8 سے 10 قیدیوں کو ایک ہی زنجیر میں باندھا جاتا ہے۔ اس کے بعد متعلقہ عدالتوں میں پیشی کے لئے لے کرجایا جاتا ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ کورٹ پولیس کی نفری کم ہونے کے باعث قیدیوں کو سنبھالنا، ان اہلکاروں کے لئے مشکل ہوجاتا ہے۔ ان تمام قیدیوں کے لئے محض 52 اہلکار تعینات کئے گئے ہیں۔

ذرائع سے معلوم ہوا کہ جیلوں سے پیشی پر لائے جانے والے قیدیوں کو رشوت کے عوض سہولیات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ قیدیوں کو متعلقہ عدالتوں میں پیش کرنے کے بعد واپس لاک اپ کرنے کے بجائے سٹی کورٹ میں مختلف جگہوں پر بنائے ہوئے شیڈز اور دیگر جگہوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ قیدیوں کو پیشیوں پر لے جانے والے اہلکاروں کی جانب سے ملزمان سے رشوت طلب کی جاتی ہے۔

رشوت ادا کرنے والے قیدیوں کو سٹی کورٹ میں مختلف جگہوں پر بٹھا دیا جاتا ہے جن میں ضلع شرقی کی عدالتوں کی بلڈنگ اور جناح آڈیٹوریم کے درمیان والے شیڈ، کینٹین کے سامنے والے شیڈ، ضلع غربی کی عدالتوں کی بلڈنگ کے درمیان چائے کی اسٹالز کے قریب والی جگہ اور ضلع وسطی کی عدالتوں کی بلڈنگ کے نیچے بنائے ہوئے شیڈ شامل ہیں۔ جہاں وہ اپنے رشتے داروں سے ملاقات کرسکتے ہیں اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا بھی کھاتے ہیں جبکہ زیادہ رشوت کی ادائیگی پر مذکورہ قیدیوں کو باہر سے کھانا لاکر بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ رشوت ادا کرنے والے قیدیوں کو موبائل فون بھی فراہم کردیا جاتا ہے جس سے وہ گھنٹوں کسی نہ کسی سے بات چیت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

معلوم ہوا ہے کہ پولیس اہلکاروں کی غفلت اور لاپرواہی کے سبب سٹی کورٹ سے قتل، غیر قانونی اسلحہ، فراڈ، دھوکہ دہی، چیک باؤنس سمیت متعدد مقدمات میں گرفتار11 قیدی فرار ہوچکے ہیں۔ فرار ہونے والے قیدیوں میں قتل اور غیر قانونی اسلحے کے مقدمات میں پیشی پر آنے والے دو ملزمان اکرام اور ایاز عرف شنکر شامل ہیں، جس پر سٹی کورٹ کے لاک اپ کے دو اے ایس آئی رسول بخش اور اخلاق کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

اسی طرح دعا منگی کیس کا ملزم زوہیب قریشی پولیس اہلکاروں کی غفلت کی وجہ سے فرار ہوا تھا جس پر ہیڈ کانسٹیبل محمد نوید اور حبیب ظفر کے خلاف مقدمہ درج کیاگیاتھا۔ قتل اور اسلحہ برآمدگی کے مقدمات میں نامزد قیدی ملک الطاف جبکہ غیر قانونی اسلحہ برآمدگی کا قیدی طارق بھی فرار ہوچکے ہیں۔ جس پر پولیس اہلکاروں عالم زیب اور شوکت کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ دھوکہ دہی کے مقدمہ میں قید دو سگے بھائی محمد امین اور محمد اسماعیل بھی فرار ہوچکے ہیں۔ جبکہ مختلف نوعیت کے 17 مقدمات میں نامزد قیدی آصف بھی فرار ہوچکا ہے۔

غفلت برتنے والے 3 پولیس اہلکاروں عبدالرؤف، فہد اور خضر حیات کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ منشیات فروشی میں ملوث ملزم نور علی بھی فرار ہوچکا ہے جس پر پولیس اہلکار اختر کے خلاف مقدمہ درج کیاگیا۔ قتل کے مقدمہ میں بند قیدی شوکت بھی فرار ہوچکا ہے، جس پر غفلت و لاپرواہی برتنے والے اے ایس آئی رمضان ، ہیڈ کانسٹیبل غلام مصطفیٰ اور کانسٹیبل ایوب کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا گیا۔

دوسری جانب مذکورہ معاملے پر مؤقف جاننے کے لئے سٹی کورٹ کے لاک اپ انچارج عظیم سولنگی سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، تاہم ان سے رابطہ نہ ہوسکا۔