اقبال اعوان :
کراچی کے بلدیاتی اور دیگر متعلقہ ادارے شہریوں کو گورکن مافیا کے چنگل سے نکالنے میں ناکام ہو گئے۔ پرانے قبرستانوں میں جگہ نکالنے یا نئے قبرستانوں کے حوالے سے عملی طور پر مسئلہ حل کرانے میں عدم دلچسپی نظر آتی ہے۔ تمام متعلقہ ادارے شب برات پر صفائی ستھرائی کرا کے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔
غریب طبقے نے مفت غسل کفن اور دیگر سہولتوں کے ساتھ مفت قبر کے لیے فلاحی اداروں سے امیدیں باندھ لیں کہ بلدیاتی ادارے اس دیرینہ اور اہم مسئلے کو مسلسل نظرانداز کر رہے ہیں۔ قبرستانوں میں قبضہ مافیا بھی سرگرم ہے۔ جس کو پولیس اور سرکاری اداروں کے ساتھ سیاسی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ واضح رہے کہ جوں جوں شب برات قریب آرہی ہے بلدیاتی ادارے بڑے بڑے اجلاس کر کے دعوے رہے ہیں کہ شب برات کے موقع پر قبرستانوں میں صفائی ستھرائی کرکے لائٹ لگائی جائے گی کہ لوگوں کو پیاروں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کے حوالے سے آنے پر پریشانی نہیں ہو۔ شہر کے وسط کے قبرستان زیادہ صاف کیے جائیں گے۔
کراچی میں 200 سے زائد قبرستان میں سے بیشتر میں قبروں کی جگہیں گزشتہ 20/25 سال سے ختم ہو چکی ہے اور قبرستان کے مرکزی دروازوں پر سرکاری اداروں کا بورڈ منہ چڑاتا نظر آتا ہے کہ قبرستان میں جگہ نہیں ہے۔ لہٰذا تدفین کہیں اور کریں۔ جبکہ یہ بھی درج ہے کہ اگر کوئی رشتے دار کئی سال قبل دفن ہوا ہے اس کے ورثا کی اجازت سے دوبارہ قبر بن سکتی ہے۔ پرانے قبرستانوں میں نئی جگہ نہیں بنائی جارہی ہے جبکہ نئے قبرستان کاغذی کارروائی کے بعد فائل میں دفن ہیں۔ عملی طور پر ہر ضلع میں جگہوں کا فقدان ہے۔ ایم کیو ایم 30 سال تک شہر پر کنٹرول سنبھالتی رہی لیکن اس مسئلے کو حل نہیں کیا۔ قبرستانوں میں گورکن مافیا سرگرم ہے اور قبرستانوں میں جگہ دن بدن مزید کم ہوتی جارہی ہے۔
قبرستانوں کی حالت انتہائی خراب ہے۔ اس دوران ہر قبرستان میں گورکن مافیا سرگرم ہے جو 50 ہزار سے دو لاکھ روپے تک میں اچھی جگہ پر قبر فراہم کرتی ہے۔ عظیم پورہ قبرستان شاہ فیصل ٹائون میں مرکزی گیٹ پر قبر زیادہ مہنگی ملتی ہے اور ملیر ندی بند تک قبرستان کی قبر کافی کم قیمت کی ہو جاتی ہے۔ اب غریب طبقہ اپنے پیاروں کی میتیں لے کر میت بس میں ادھر ادھر دھکے کھاتا نظر آتا ہے۔ کے ایم سی والے قبر کی 10 ہزار سے زائد فیس اس قبر کی لیتے ہیں جن کے رشتے دار کی قبر میں دوبارہ تدفین کی جاتی ہے۔ ورنہ گورکن مرضی کی رقم وصول کر کے قبر کھود کر دیتا ہے۔
طارق روڈ قبرستان ہو یا شاہ محمد قبرستان یا دیگر قبرستان ہوں۔ مک مکا کر کے معاملات چل رہے ہیں۔ اب لوگ فلاحی اداروں کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ قبرستان میں تدفین کے لیے آنے والے ایک سماجی کارکن کا کہنا تھا کہ ’’غریب طبقے کے لیے غسل کفن اور تابوت مفت کر کے دیتے ہیں بلکہ میت بس بھی کرا کے دیتے ہیں۔ لوگ قبروں کے لیے پریشان ہوتے ہیں کہ قبروں کی منہ مانگی رقم بھی فلاحی ادارے والے کر کے دیں۔ اس کے لیے جنازے میں آئے افراد سے چندہ کر کے رقم گورکن کو ادا کر کے مسئلہ حل کراتے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ’’نئے قبرستان نہیں بنیں گے یا پرانے میں جگہ نہیں نکالیں گے تو شہری گورکن مافیا کے چنگل میں پھنسے رہیں گے اور ندی نالوں میں قبر بنانے پر مجبور ہوں گے۔ ملیر ندی میں جام صادق پل کے نیچے قبرستان دن بدن بڑا ہورہا ہے۔‘‘ شہریوں کا کہنا ہے کہ غریب طبقے کے لیے جہاں جینا مشکل ہورہا ہے، وہیں مرنے کے بعد اہل خانہ اور ورثا کے لیے مشکلات ہورہی ہیں۔ غریب طبقے کے لوگ گورکن کو بڑی رقم ادا نہیں کر سکتے ہیں اور میت بس لے کر ادھر ادھر جاتے نظر آتے ہیں کہ جگہ مل جائے تو میت کی تدفین کر دیں۔ ساحلی کچی اور مضافاتی آبادیوں میں بھی واقع قبرستانوں میں جگہ نہیں ہوتی۔ شہر کے پوش اور وسطی علاقوں کے قبرستانوں میں ہائوس فل کے بورڈ لگے ہیں۔ میوہ شاہ قبرستان کی طرح شہر کے دیگر قبرستانوں میں قبضہ مافیا سرگرم ہے اور دن بدن مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے۔