بھارت (اُمت نیوز) مارچ 13 فروری کو شروع ہوا تھا۔ متعدد مقامات پر پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں ہوئی ہیں۔ ہریانہ پولیس کا کہنا ہے کہ اب تک 2 پولیس اہلکار ہلاک اور 30 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ ایک نوجوان کسان بھی مارا جاچکا ہے۔
کسان قیادت نے اعلان کیا ہے کہ پنجاب اور ہریانہ کے کسان ہریانہ پنجاب بارڈر پر 29 فروری تک رہیں گے۔ اس کے بعد ہی کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
ہریانہ کی حکومت نے کسانوں کو دہلی جانے سے روکنے کے لیے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں۔ پنجاب کے کسانوں کو دہلی تک پہنچنے سے روکنے کے لیے ہریانہ کی حکومت کو ٹاسک دے دیا گیا ہے تاہم کسان بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔
ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لعل کھٹر نے گزشتہ روز زرعی قرضوں پر 30 ستمبر 2023 تک کا سود معاف کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کے باوجود کسان اپنا احتجاج ترک کرنے کو تیار نہیں۔ انہوں نے دہلی چلو مارچ جاری رکھا ہے۔
دہلی میں مودی سرکار کے ساتھ کسان قیادت کی بات چیت کے تین ادوار ہوئے ہیں تاہم بیشتر امور پر تعطل برقرار ہے۔ کسانوں نے چند قوانین میں تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے اور فصلوں کے لیے بیمہ کاری کا دائرہ وسیع کرنے پر بھی زور دیا ہے۔
کسانوں کا ایک بنیادی مطالبہ یہ بھی ہے کہ بارش، سیلاب، شدید گرمی اور شدید سردی کے نتیجے میں فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کا سامنا کرنے کے حوالے سے کسانوں کی مالی معاونت کی جائے۔
مودی سرکار نے کسانوں کے احتجاج سے متعلق بیشتر سوشل میڈیا اکاؤنٹ بند کردیے ہیں۔ اس کے باوجود کسانوں کا مورال بلند ہے اور وہ اپنے مطالبات یا احتجاج سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں۔ متعدد ویب سائٹس نے دعویٰ کیا ہے کہ سوشل میڈیا اکاؤنٹ ایگزیکٹیو آرڈر کے تحت بلاک کیے گئے ہیں۔ ہریانہ کے 7 اضلاع میں انٹرنیٹ سروس بند کردی گئی ہے۔
معروف بھارتی صحافی مندیپ پونیا نے کہا ہے کہ مودی سرکار ہماری آواز دبانا اور بند کرنا چاہتی ہے۔ اپوزیشن لیڈر کا کہنا ہے کہ مودی سرکار حقیقی آوازوں کو خاموش کرانے کی کوشش کر رہی ہے۔
سمیُکت کسان مورچہ نے بھارت میں جمعہ کو یوم سیاہ منانے اور بھرپور احتجاج کرنے کی کال دی ہے۔ احتجاج کے دوران 21 سالہ کسان شُبھ کرن سنگھ کی کے قتل کا مقدمہ درج کرنے کا بھی مطالبہ کیا جارہا ہے۔
کسان قیادت نے ہریانہ کی اور مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ شُبھ کرن سنگھ کے اہلِ خانہ کو ہرجانے کی مد میں ایک کروڑ روپے دیے جائیں۔ سمیُکت کسان مورچہ نے بھارتی دارالحکومت کی طرف ٹریکٹر مارچ کی بھی کال دی ہے۔
کسانوں کے احتجاج کے دوران ان پر تشدد کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے اپوزیشن کی جماعتوں نے مودی سرکار سے مطالبہ کیا ہے کہ کسانوں کے تمام مطالبات پر سیر حاصل مذاکرات کیے جائیں اور ان کی ہر وہ بات مانی جائے جو مانی جانی چاہیے۔
کسان قیادت نے کئی ریاستوں میں کینڈل مارچ اور دیگر تقریبات کا بھی اعلان کیا ہے تاکہ مودی سرکار پر دباؤ بڑھایا جاسکے۔ 26 مارچ کو عالمی تجارتی تنظیم اور مرکزی حکومت کے پتلے جلائے جائیں گے۔ کسان قیادت نے پُرامن احتجاج اور مارچ سے روکنے پر مرکز اور چند ریاستی حکومتوں کے خلاف سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کردی ہے۔