ممکنہ مذاکرات میں علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر محمد علی سیف کا کردار اہم ہوگا، فائل فوٹو
 ممکنہ مذاکرات میں علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر محمد علی سیف کا کردار اہم ہوگا، فائل فوٹو

امریکی لابنگ فرمیں بھی عمران کو نہ بچا سکیں

امت رپورٹ :
امریکہ کی چار لابنگ فرمیں بھی عمران خان کو نہ بچاسکیں۔ یہ لابنگ فرمیں پی ٹی آئی کے اوورسیز ہمدردوں نے کروڑوں روپے کے عوض ہائر کی تھیں۔ یہ سلسلہ قریباً چار برس قبل شروع کیا گیا تھا۔ جس کا مقصد امریکا میں عمران خان کی شخصیت سازی، امریکی کانگریس اور سینیٹ میں پی ٹی آئی کی سپورٹ حاصل کرنا، سانحہ نو مئی کے کرداروں کے خلاف کارروائی کو انسانی حقوق سے جوڑنا، انتخابات اور حکومت سازی سمیت دیگر معاملات میں بیرونی مداخلت کرانا تھا۔ لیکن پی ٹی آئی کو اس میں سو فیصد ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

امریکی لابنگ اور پی آر فرموں نے اتنا تو کیا کہ غیر ملکی اخبارات اور جرائد میں پی ٹی آئی کے حق میں رپورٹس شائع کراتی رہیں۔ متعدد امریکی ارکان سینیٹ اور ارکان کانگریس سے بیانات بھی جاری کرائے گئے۔ لیکن عملی طور پر کچھ نہیں ہو سکا۔ امریکی حکومت اس سارے معاملے سے الگ تھلگ رہی اور اس نے ان تمام ایشوز کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دے کر کنارہ کرلیا۔ یوں کروڑوں روپے ضائع ہوگئے۔

سب سے پہلے جولائی دو ہزار اکیس میں سی آئی اے کے سابق عہدیدار رابرٹ لارنٹ گرینیے کی فرم ’’ایل ایل سی‘‘ کو پی ٹی آئی کی لابنگ کے لئے ہائر کیا گیا تھا۔ اس وقت پاکستان میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔ اس کا مقصد امریکی حکام کے ساتھ عمران حکومت کے تعلقات بہتر بنانا تھا۔ جو پورا نہ ہو سکا۔ یہ خفیہ معاہدہ افتخار درانی نے پچیس ہزار ڈالر ماہانہ (انہتر لاکھ انیس ہزار پاکستانی روپے) کے عوض سائن کیا تھا۔ یہ وہی افتخار درانی ہیں۔ جن کی ایک اخلاق باختہ ویڈیو لیک ہوئی تھی۔ معاہدہ چھ ماہ کے لئے تھا۔ یوں اس مد میں امریکی فرم کو مجموعی طور پر پانچ کروڑ چھبیس لاکھ روپے سے زائد رقم ادا کی گئی۔ جو ڈیڑھ لاکھ ڈالر بنتے ہیں۔

عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد اگست دو ہزار بائیس میں ایک اور امریکی پی آر فرم ’’فینٹین ارلوک‘‘ کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس لابنگ فرم نے درجنوں امریکی اور مغربی اخبارات و رسائل میں عمران خان کے متعدد انٹرویوز شائع کرائے۔ لیکن نتیجہ ڈھاک کے تین پات نکلا۔ اس فرم کو بھی پچیس ہزار ڈالر ماہانہ کے عوض ہائر کیا گیا تھا۔ چھ ماہ کے معاہدے کے عوض فرم کو مجموعی طور پر ڈیڑھ لاکھ ڈالر ادا کیے گئے۔ جو پانچ کروڑ چھبیس لاکھ پاکستانی روپے بنتے ہیں۔ جبکہ امریکی فرم کو سفر اور دیگر اخراجات کے لئے الگ سے رقم ادا کی گئی۔ اس معاہدے کا دورانیہ یکم اگست دو ہزار بائیس سے اکتیس جنوری دو ہزار تئیس تک تھا۔

بعد ازاں ایک تیسری امریکی لابنگ فرم کی خدمات حاصل کی گئیں۔ جس کا مقصد بانی پی ٹی آئی کی زندگی کو درپیش نام نہاد خطرات سے مغرب کو آگاہ کرنا تھا۔ ’’پرایا کنسلٹنٹس ایل ایل سی‘‘ نامی فرم سے بھی چھ ماہ کے لیے معاہدہ کیا گیا۔ جسے ماہانہ آٹھ ہزار تین سو تنتیس ڈالر ادا کیے گئے۔ جو تئیس لاکھ چھ ہزار سے زائد پاکستانی روپے بنتے ہیں۔ یوں اس فرم کو مجموعی طور پر تقریباً پچاس ہزار ڈالر یعنی ایک کروڑ اڑتیس لاکھ روپے سے زائد رقم دی گئی۔ یہ معاہدہ بھی خاموشی کے ساتھ کیا گیا تھا۔ تاہم امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اس کا بھانڈا پھوڑ دیا تھا۔

امریکا میں پی ٹی آئی کے ایک حامی ڈاکٹر فیاض قریشی نے چوتھی فرم حالیہ برس ہائر کی۔ ’’ایل جی ایس ایل ایل سی‘‘ نامی اس فرم سے ڈیڑھ ماہ کے لئے معاہدہ کیا گیا۔ یہ معاہدہ سولہ مارچ دو ہزار چوبیس تک ہے۔ اس کے عوض پچاس ہزار ڈالر (ایک کروڑ اڑتیس لاکھ سے زائد پاکستانی روپے) فرم کو بطور فیس ادا کیے جائیں گے۔ نصف سے زائد رقم دی جاچکی ہے۔

دلچسپ امر ہے کہ کروڑوں روپے پھونک کر بھی پی ٹی آئی مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کر سکی ہے۔ تحریک انصاف کا حالیہ مطالبہ انتخابات میں دھاندلی کو لے کر امریکی مداخلت کرانا تھا۔ تاہم امریکی حکام نے کورا جواب دے دیا ہے۔ امریکا نے نہ صرف انتخابات سے متعلق پی ٹی آئی کے مطالبے کو نظرانداز کر دیا۔ بلکہ حکومت سازی کے عمل سے بھی اعلان لا تعلقی کیا ہے۔ حال ہی میں جاری امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ نئی حکومت کا قیام پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور یہ کہ پاکستان میں نئی حکومت کی تشکیل میں فریق نہیں بنیں گے۔