برطانیہ (اُمت نیوز)برطانوی نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ پاکستان میں “افراتفری کے بادشاہ’ عمران خان جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے ہوئے بھی جیت رہے ہیں۔
بی بی سی اردو سروس کے سابق سربراہ اور معروف تجزیہ کار و مصنف محمد حنیف نے لکھا ہے کہ پاکستان کے حالیہ انتخابات سے یہ توقع کی جارہی تھی کہ شدید معاشی مشکلات اور سیاسی عدم استحکام سے دوچار ملک کے لیے تھوڑے بہت استحکام کا سامان ہو جائے گا۔ اس کے بجائے ہوا یہ کہ ملک کو ایک ایسی حکومت مل رہی ہے جس میں کوئی بھی جماعت اکثریت کی حامل نہیں۔ ایسی مخلوط حکومت معرضِ وجود میں آرہی ہے جو خود اپنے ہی مینڈیٹ کے حوالے سے شکوک میں مبتلا ہے۔
انتخابی نتائج کے دو ہفتوں کے بعد مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے مل کر حکومت بنانے کا اعلان کیا تاہم پی پی پی نے کہا ہے کہ وہ حکومت کا حصہ نہیں ہوگی۔
مخلوط حکومت بنانے کا اعلان نصف شب کو کیا گیا اور ایسا تاثر ملا جیسے یہ زبردستی کا سودا ہو۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ بظاہر کوئی بھی وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کو راضی نہ تھا۔
اسٹیبلشمنٹ (یہ لفظ پاکستان میں میڈیا والے طاقتور فوج کے لیے استعمال کرتے ہیں) ہمیشہ اس بات یر یقین رکھتی آئی ہے کہ انتخابات اتنا حساس معاملہ ہیں کہ انہیں سویلین سیاست دانوں کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔
اس بار بھی اسٹیبلشمنٹ نے اپنی پرانی پلے بک کھولی اور ماضی کی طرح ہر ترکیب کامیابی سے بروئے کار لانے میں کامیاب رہی۔
انتخابات سے دو ہفتے قبل پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق چیئرمین عمران خان کو تین مقدمات میں سزائیں سنائی گئیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ’افراتفری کے بادشاہ‘ سمجھے جانے والے عمران خان پابندِ سلاسل ہونے کے باوجود جیت رہے ہیں۔
عمران خان کو انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا۔ ان کی پارٹی کے امیدواروں کو بھی آزادانہ انتخابی مہم چلانے کا موقع نہ مل سکا۔ بیشتر کو انتخابی مہم چلانے سے زیادہ محنت گرفتاری سے بچنے پر کرنا پڑی۔ مخالفین کو تمام مقدمات میں بری کرکے آزادی سے انتخابی مہم چلانے کی اجازت دی گئی۔
انتخابی عمل میں، بظاہر، پی ٹی آئی کے کارکنوں اور حامیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ مشکلات کھڑی کرنے کی خاطر موبائل فون سروس بند کردی گئی، سوشل میڈیا بھی بند کردیے گئے۔ عمران خان کے حامیوں نے غیر معمولی وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے واٹس ایپ گروپ بنائے، راتوں رات کئی ایپس اور ویب سائٹس قائم کیں اور قابلِ رشک ٹرن آؤٹ یقینی بنایا۔
عمران خانے پیغامات پھیلانے کے لیے مصنوعی ذہانت اور دیگر ٹیکنالوجیز سے مدد لی گئی۔ جیل میں عمران کو جو شناختی نمبر دیا گیا ہے وہ سیاسی نعرے میں تبدیل ہوگیا۔ پی ٹی آئی کے حامیوں نے سب کچھ چھپ چھپاکر کیا اور پولنگ ڈے پر اچانک بڑی تعداد میں پولنگ اسٹیشن کا رخ کیا۔
اسٹیبلشمنٹ نے ڈجیٹل ٹیکنالوجی سے غیر معمولی شغف رکھنے والی نسل کو بیسویں صدی کے ہتھکنڈوں سے دبانے کی کوشش کی اور ناکام رہی۔ نئی نسل نے بتادیا کہ وہ ایسی ناخواندہ و لاعلم نہیں جیسا کہ اسے سمجھا جاتا ہے۔
عمران بظاہر سیاست میں اُتنے مضبوط نہ ہوں جتنے احتجاج میں ہیں۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ارکان اسمبلی اِتنے نہیں کہ حکومت بناسکیں۔ عمران خان نے اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران اپنے مخالفین کو کرپٹ قرار دیا اور اِسے ثابت کرنے کی بھرپور کوشش بھی کی۔ جن سیاست دانوں پر وہ کرپشن کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں ان کے ساتھ حکومت بنانے سے وہ گریزاں ہیں۔
جیل کی سلاخوں کے پیچھے تو بہت سے پاکستانی سیاست دانوں کو ڈالا جاتا رہا ہے تاہم اب تک جیل کو عمران خان سے زیادہ کسی نے انجوائے نہیں کیا۔ عوامی پلیٹ فارم تک پہنچنے سے روکے جانے پر عمران خان نے اپنے وکلا اور خاندان کے افراد کے ذریعے پی ٹی آئی کے ووٹرز سے رابطہ رکھا ہے اور اپنے امیدواروں کو کامیابی دلانے میں کلیدی کردار کے حامل رہے ہیں۔
گزشتہ مئی میں پی ٹی آئی کے سربراہ کی گرفتاری کے بعد کارکنوں کے خلاف تیز اور خاصا بے رحمانہ کریک ڈاؤن کیا گیا۔ پی ٹی آئی کے بیشتر قائدین کو گرفتار کرکے وفاداری بدلنے پر مجبور کیا گیا۔ کچھ نے عمران خان پر تنقید کی اور کچھ سیاست ہی چھوڑ گئے۔
اسٹیبلشمنٹ یہ پیغام دینا چاہتی تھی کہ پی ٹی آئی ختم ہوچکی ہے مگر پارٹی قیادت کی دوسری پرت سامنے آئی اور اس نے پارٹی کو جوڑے رکھا اور کچلی ہوئی انتخابی مہم کو کامیابی میں تبدیل کیا۔
پی ٹی آئی کے دوسرے درجے کے قائدین کو اندازہ تھا کہ ان کے قائد کو اقتدار میں نہیں آنے دیا جائے گا مگر پھر بھی وہ پیچھے نہ ہٹے اور قائد کا ساتھ دیا۔
مخالفین کہتے ہیں کہ اقتدار میں عمران خان نے ملک چلانے سے زیادہ مخالفین کو دبانے پر توجہ دی۔ وہ اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی اپوزیشن لیڈر کی طرح کام کرتے رہے۔
2013 کا الیکشن ہارنے پر عمران خان نے جو احتجاجی تحریک چلائی وہ بہت حد تک اسٹیبلشمنٹ کے آشیرواد کا نتیجہ تھی۔ اب جبکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے دشمن نمبر ون ہیں، حالیہ انتخابی کامیابی نے ان میں نیا جوش و جذبہ پھونک دیا ہے۔
پی ٹی آئی نے اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے مگر عمران خان پارلیمنٹ میں نہیں بلکہ سڑکوں پر سیاست گری کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ جلسوں اور جلوسوں کے ساتھ ساتھ وہ سوشل میڈیا پر بھی متحرک رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
معیشت کا برا حال ہے۔ ملک کے دوسرے بھی بہت سے مسائل ہیں۔ ایسے میں حکومت چلانا بچوں کا کھیل نہ ہوگا۔ حکمرانوں کو بیرون ملک سے امداد کے حصول کے لیے بھی بہت کوشش کرنا پڑ رہی ہے۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ جیل میں گزارا ہوا وقت عمران خان کو مزید میچیور سیاست میں تبدیل کرے گا مگر ایسا لگتا نہیں۔ آثار اس بات کے ہیں کہ عمران خان ایسا سیاست دان بننے کو ترجیح نہیں دیں گے جسے اسٹیبلشمنٹ آسانی سے نگل سکے۔
روایتی سیاست سے گریز، بلکہ اس پر حملوں نے عمران خان کی مقبولیت بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ عمران خان اپنی یہ شناخت ایک ایسے ملک کو چلانے کے لیے ترک کرنے پر آمادہ نہ ہوں گے جسے چلانے پر کوئی بھی آمادہ دکھائی نہیں دیتا۔
ایسے میں بہتر یہی ہے کہ عمران خان ملک کے مقبول ترین قیدی (نمبر 804) کی حیثیت سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔