"پاکستان میں اس وقت 50 فیصد سے زیادہ آبادی کا وزن صحت مند حد سے زیادہ ہے، جس کے نتیجے میں کئی انتہائی نقصان دہ بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔” یہ بات موٹاپے کے عالمی دن کے موقع پر ٹرانسفارم پاکستان مہم کے اتحادیوں کی جانب سے جاری کردہ ایک پریس بیان میں بتائی گئی۔
حالیہ مطالعات کے مطابق پاکستان میں موٹاپے کے بڑھتے ہوئے رجحان اور ٹرانس فیٹ سے لبریز غذاؤں کے بڑے پیمانے پر استعمال کے درمیان براہِ راست تعلق ہے۔ یہ نقصان دہ مادہ عام طور پر پروسیس شدہ غذائی اشیاء، ڈیری مصنوعات، گھی اور کوکنگ آئل میں پایا جاتا ہے۔
پاکستان یوتھ چینج ایڈوکیٹس (PYCA) کے ڈائریکٹر کمیونیکیشن اینڈ ایڈووکیسی افشار اقبال نے کہا، "عالمی اداراہِ صحت کے اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ 58.1 فیصد پاکستانیوں کا وزن صحت مند حد سے ذیادہ ہے اور 43.9 فیصد موٹاپے کا شکار ہیں۔جب ہی، 2015 میں پاکستان میں موٹاپے پر قابو پانے کی تخمینی سالانہ لاگت PKR 428 بلین تھی۔”
پریس بیان میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ پاکستان میں موٹاپے کے بڑھاؤ کی روک تھام کے لیے اس بیماری کو جنم دینے والی بنیادی وجوہات کو دور کیا جائے۔ ہارٹ فائل کی سی۔ای۔او ڈاکٹر صبا امجد نے کہا، "موٹاپے کی بڑھتی ہوئی شرح اور پاکستانی غذائی ذرائع میں صنعتی طور پر تیار کردہ ٹرانس فیٹ کے پھیلاؤ کے درمیان گہرا تعلق ہے۔” گلوبل ہیلتھ ایڈوکیسی انکیوبیٹر (GHAI) کے اندرون ملک کوآرڈینیٹر، جناب منور حسین نے مزید کہا کہ "ٹرانس فیٹ صحت کے متعدد مسائل سے منسلک ہے، جن میں موٹاپا، قلبی امراض، اور دیگر میٹابولک عوارض شامل ہیں۔”
"پاکستان میں موٹاپے اور اس سے متعلقہ بیماریوں کی بڑھتی ہوئی لہر کو کم کرنے کے لیے سب سے اہم اقدامات میں سے ایک حکومت کی طرف سے لازمی ریگولیٹری فریم ورک متعارف کرانا ہے۔ اس طرح کے فریم ورک کے تحت تمام غذائی اشیاء میں ٹرانس فیٹ کو کل چکنائی کے 2 فیصد یا اس سے کم تک محدود کرنا ہو گا،” جناب مختار احمد، ایگزیکٹو ڈائریکٹر، سینٹر فار پیس اینڈ ڈیولپمنٹ انیشیٹو (سی۔پی۔ڈی۔آئی) نے زور دیا۔
وزارتِ قومی صحٹ، جو کہ ٹرانسفارم پاکستان مہم کی سرپرست بھی ہے، پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (PSQCA) سمیت مختلف سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے ساتھ سرگرمِ عمل ہے تاکہ حکومت کی زیرِ قیادت ٹرانس فیٹ کی روک تھام کے لیے ایک لازمی ضابطے کو جلد لاگو کیا جا سکے. ڈاکٹر خواجہ مسعود احمد، نیشنل کوآرڈینیٹر، نیوٹریشن اینڈ نیشنل فورٹیفیکیشن الائنس نے کہا، "2023 میں پاکستان کوکنگ آئل، بناسپتی گھی، بیکری شارٹننگ اور بیکری کے سامان سمیت متعدد غذائی اشیاء میں ٹرانس فیٹ کے مواد کو ریگولیٹ کرنے میں کامیابی ملی۔تاہم، ہم اس بات سے آگاہ ہیں کہ بہت سے قابل ذکر کھانے کی اشیاء جیسے کہ الٹرا پروسیس شدہ کھانے، دودھ سے تیار کردہ مصنوعات مثلاً چاکلیٹ اور آئس کریم اور اسٹریٹ فوڈ اب بھی اس ضابطے کے دائرے سے باہر ہیں۔ وزارت قومی صحت اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے کہ پاکستان بھر کی تمام غذائی اشیاء جلد ہی ایک متحد ضابطے میں آ جائیں گی تاکہ ہمارے غذائی ذرائع میں ٹرانس فیٹ کے پھیلاؤ کو محدود کیا جا سکے۔
ٹرانسفارم پاکستان عام عوام اور پالیسی سازوں کے لیے پاکستانی غذائی ذرائع میں ٹرانس فیٹ کے ضابطے کے لیے یک زبان ہونے کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس کا مقصد ملک کے صحتِ عامہ کے اشاریوں پر غیر متعدی بیماریوں اور اس سے وابستہ موٹاپے جیسے خدشات کو کم کرنا ہے۔