درجن بھر ڈویژنوں سے تعلق رکھنے والے لیگی ارکان پہلے مرحلے میں نظر انداز کر دیے گئے، فائل فوٹو
درجن بھر ڈویژنوں سے تعلق رکھنے والے لیگی ارکان پہلے مرحلے میں نظر انداز کر دیے گئے، فائل فوٹو

صوبائی وزارتوں میں لاہور بازی لے گیا

نواز طاہر:
وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے پنجاب کابینہ میں خواتین اور اقلیتوں کی نمائندگی دینے کے ساتھ صوبے کے تمام ڈویژنوں کو بھی نمائندگی دی ہے۔ جس میں لاہور سر فہرست ہے۔ ان کی کابینہ میں پینتیس سے ساٹھ سال کی عمر کے وزرا شامل ہیں۔

پنجاب کابینہ نے گزشتہ روز بدھ کی سہ پہر گورنر ہائوس میں حلف اٹھایا اور کچھ ہی دیر کے بعد انہیں قلمدان بھی سونپ دیے گئے۔ ابتدائی طور پر قانون اور پارلیمانی امور جیسی اہم وزارتیں وزیر اعلیٰ مریم نواز نے اپنے پاس رکھی ہیں۔ جبکہ ترقی و پلاننگ اور محکمہ جنگلات و ماحولیات کی وزارت کا قلمدان مریم اورنگزیب کو دیا ہے، جن کی حیثیت سینئر وزیر کی ہوگی۔

جبکہ اطلاعات کا محکمہ عظمیٰ زاہد بخاری کو دیا گیا ہے۔ سابق وزرائے برائے صحت خواجہ سلمان رفیق اور خواجہ عمران نذیر کو اب پھر انہیں محکموں کا قلمدان سونپا گیا ہے۔ میاں مجتبیٰ شجاع الرحمان کو اس بار ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے بجائے محکمہ خزانہ کا قلمدان دیا گیا ہے جو ماضی میں بھی وزیر خزانہ کی حیثت سے مسلم لیگ ن کی حکومت میں بجٹ پیش کرچکے ہیں۔ بلال یاسین بٹ کو بھی ماضی کی طرح محکمہ خوراک کی ہی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔

خلیل طاہر سندھو کو دوبارہ انسانی حقوق کا قلمدان سونپا گیا ہے اور اقلیتی امور کی وزارت سردار رمیش سنگھ اروڑہ کو دی گئی ہے جو پہلی بار کابینہ میں شامل کیے گئے ہیں۔ اٹھارہ رکنی کابینہ میں سابق ڈپٹی اسپیکر سردار شیر علی گورچانی کو محکمہ معدنیات و معدنی ترقی کی وزارت دی گئی ہے۔ کابینہ میں پہلی مرتبہ شامل ہونے والوں میں سے چودھری شافع حسین کو محکمہ بزنس اینڈ انڈسٹری کا قلمدان دیا گیا ہے۔ جبکہ سہیل شوکت بٹ کو سماجی بہبود کی وزارت دی گئی ہے۔

کھیلوں کا محکمہ فیصل ایوب کھوکھر کو جبکہ بلدیات کی وزارت کا قلمدان زیشان رفیق کو دیا گیا ہے۔ سید عاشق حسین شاہ کو زراعت کا محکمہ دیا گیا ہے۔ بلال اکبر خان ٹرانسپورٹ کے وزیر بنائے گئے ہیں۔ صہیب احمد ملک کو سول ورکس، سید کاظم پیر زادہ کو محکمہ آبپاشی دیا گیا ہے۔ رانا سکندر حیات کو ایجوکیشن کا وزیر بنایا گیا ہے۔ کابینہ کے اراکین کے بارے میں وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کا کہنا ہے کہ کابینہ میں اہل لوگوں کو شامل کیا ہے جن سے بہت توقعات ہیں۔ کابینہ میں فارن کوالیفائیڈ اور کچھ تجربہ کار لوگ شامل کیے ہیں جو عوام کی خدمت کریں گے۔

اٹھارہ رکنی کابینہ میں حکومت سازی میں نو لیگ کی حلیف جماعتوں پیپلز پارٹی اور استحکام پاکستان پارٹی شامل نہیں ہے۔ البتہ ق لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت کے بیٹے شافع حسین کو شامل کیا گیا ہے۔ مسلم لیگ ن کی ہر صوبائی کابینہ کا حصہ رہنے والی پنجاب اسمبلی کی اس وقت تک کی سب سے سینئر ترین رکن بیگم ذکیہ شاہنواز کو پہلی بارکابینہ سے ڈراپ کیا گیا ہے۔

کابینہ میں وزیر اعلیٰ سمیت تین خواتین جن میں مریم اورنگزیب پہلے اطلاعات و نشریات کی وفاقی وزیر رہ چکی ہے اور عظمیٰ زاہد بخاری شہباز شریف کی صوبائی کابینہ میں محکمہ اطلاعات کی پارلیمانی سیکریٹری کے طورپرکام کرچکی ہیں۔ یہ دونوں خواتین ارکان بالترتیب مسلم لیگ کی مرکزی اور پنجاب کی ترجمان بھی ہیں۔ عظمیٰ زاہد بخاری سنہ دو ہزار دو میں پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے پہلی بار مخصوص نشست پر پنجاب اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔ بعد ازاں وہ اور ان کے شوہر سمیع اللہ خان مسلم لیگ ن میں شامل ہوگئے تھے۔

کابینہ میں میں لاہور سے شامل کیے جانے ولے وزرا بلال یاسین، خواجہ عمران نذیر، خواجہ سلمان رفیق بھی اب تک کے ہر الیکشن میں ناقابلِ شکست رہے ہیں اور ماضی میں الیکشن نہ ہارنے والے سہیل شوکت بٹ کو پہلی بار کابینہ میں شامل کیا گیا ہے۔ اسی طرح پہلی بار منتخب ہونے والے پنجاب اسمبلی کے رکن فیصل ایوب کھوکھر کو بھی کابینہ کا رکن بنایا گیا ہے۔ ان کا تعلق لاہور کی معروف کھوکھر فیملی سے ہے اور پاکستان مسلم لیگ لاہورکی صدارت بھی انہی کے پاس ہے۔

اسی طرح صہیب احمد ملک بھی پہلی بارکابینہ میں شامل کیے گئے ہیں جن کا تعلق پرانے مسلم لیگی بھرت خاندان سے ہے اور وہ دوسری بار پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔ سردار رمیش سنگھ اروڑہ بھی پہلی بار وزیر بنائے گئے ہیں، ان کا تعلق نارووال کے کاروباری خاندان سے ہے اور ان کے ایک بھائی گورودوارہ کرتارپور کے گیانی ہیں۔ کابینہ میں نئے چہرے راناسکندر حیات کا رانا پھول خان خاندان سے تعلق ہے۔

اسی خاندان کے رانا محمد اقبال مسلسل تین بار پنجاب اسمبلی کے اسپیکر رہے ہیں۔ بلال اکبر خان کا سیاسی پس منظر زمیندار خاندان سے ہے۔ اس طرح کابینہ میں سب سے زیادہ نمائندگی لاہور کی ہے ۔ جبکہ گجرات ، نارووال ، سیالکوٹ، اوکاڑہ، راجن پور، قصور، راولپنڈی اور سرگودھا کے اضلاع کے علاوہ کسی ضلع کی نمائندگی نہیں۔ جنوبی پنجاب کی نمائندگی راجن پور اور بہاولپور (ڈپٹی اسپیکر ) سے کی گئی ہے۔ جبکہ پہلی بار ساہیوال، فیصل آباد ، ملتان، لیہ، بھکر، خانیوال، خوشاب، بہاولنگر، پاکپتن، ڈی جی خان، مظفر گڑھ، لودھراں اور جہلم کو تاحال نمائندگی نہیں ملی۔