ریسرچ میں 40 سے 69 سال کی عمر کے لوگوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا، فائل فوٹو
ریسرچ میں 40 سے 69 سال کی عمر کے لوگوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا، فائل فوٹو

دماغی صحت کیلیے3 آسان طریقے دریافت

میگزین رپورٹ :
جنوبی امریکی ملک یوروگوئے اور برطانیہ کے سائنسدانوں نے دماغ کو بوڑھا ہونے سے بچانے کیلئے 3 آسان طریقے دریافت کرلیے ہیں۔ تینوں ترکیبیں دوپہر میں مختصر نیند سے جڑی ہیں۔ جن میں دن میں تھوڑی سی دیرکے علاوہ جھپکی یا قیلولہ شامل ہیں۔

تازہ ریسرچ سے ظاہر ہوا ہے کہ دن کے وقت تھوڑی سی نیند، جھپکی یا قیلولہ کرنے سے دماغ کا سائز کم ہونے کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔ جس سے دماغی کارکردگی بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔

واضح رہے کہ ماضی میں سائنس دانوں کی جانب سے کی گئیں تحقیقات میں متفقہ طور پر تسلیم کیا گیا تھا کہ جوں جوں انسان کی عمر بڑھتی ہے۔ اس کا دماغ سکڑنا شروع ہوجاتا ہے۔ جس سے دماغی اور اعصابی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ یہ خرابی آخرکار یاد داشت اور دوسری اعصابی بیماریوں کو جنم دے سکتی ہے۔ لیکن ایک تازہ ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ دن کے وقت تھوڑی سی نیند، جھپکی یا قیلولہ کرنے سے دماغ کے سائز میں کمی کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔ جو دماغی کارکردگی کو بہتر بنانے یا اسے برقرار رکھنے میں مدد دے سکتی ہے۔

یہ ریسرچ یونیورسٹی کالج آف لند ن (یو سی ایل) کی زیر قیادت یونیورسٹی آف یوروگوئے کے سائنس دانوں نے کی ہے اور حال ہی میں جریدے سلیپ ہیلتھ میں شائع ہوئی۔ اس ریسرچ میں 40 سے 69 سال کی عمر کے لوگوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا۔ نتائج سے ظاہر ہوا کہ دن کے وقت باقاعدگی سے قیلولہ کرنے کا دماغ کے حجم میں مجموعی اضافے سے ایک براہ راست تعلق تھا۔

جریدے سائی ٹیک ٹیلی کے مطابق ریسرچ کی سینئر مصنفہ اور یو سی ایل میں لائف لانگ ہیلتھ اینڈ ایجنگ یونٹ کی ڈاکٹر وکٹوریہ گارفیلڈ کا کہنا ہے کہ ’ہماری ریسرچ کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر لوگ دن کے وقت تھوڑی سی نیند لینا شروع کر دیں تو عمر بڑھنے کے ساتھ وہ اپنی دماغی صحت کو برقرار رکھ سکتے ہیں‘۔

اس سے قبل کی ایک ریسرچ سے بھی ظاہر ہوا تھا کہ دماغی کار کردگی کے ٹیسٹ لینے سے قبل کچھ دیر نیند لینے والے لوگوں کے اسکور ان لوگو ں سے بہتر تھے۔ جنہوں نے ایسا نہیں کیا تھا۔ ریسرچ ٹیم نے اندازہ لگایا کہ باقاعدگی سے نیپ لینے والے اور نیپ نہ لینے والے لوگوں کے درمیان دماغ کے سائز میں اوسط فرق لگ بھگ ڈھائی سے ساڑھے چھ سال کے برابر تھا۔ یعنی جو لوگ دن کے وقت باقاعدگی سے قیلولہ یا تھوڑی دیر نیند کر لیتے تھے اور دن کے وقت بھی اپنے دماغ کو کچھ دیر آرام کرنے دیتے تھے۔ ان کی دماغی عمر نیپ نہ لینے والوں سے تقریباً چار گنا کم تھی۔ ان کی توجیہ ہے کہ سوتے وقت چونکہ دماغ بہت کم استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے وہ جاگتے وقت کے دماغ سے زیادہ جوان رہتا ہے۔

تاہم ریسرچ کی سر براہ ڈاکٹر گارفیلڈ کا کہنا ہے کہ یہ پہلی ریسرچ ہے جس میں دن کے وقت باقاعدگی سے نیپ لینے یا جھپکی لینے اور دماغ کے سائز کے درمیان تعلق کو جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں ابھی مزید ریسرچ کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ دماغ کے سائز پر پیدائش کے وقت جینز، اور رہن سہن کا انداز بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

ڈاکٹر گارفیلڈ نے مزید کہا کہ مجھے امید ہے ان کی ریسرچ سے دن کے وقت تھوڑی سی نیند لینے کے بارے میں جو غلط تاثرات ابھی تک موجود ہیں انہیں کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اگرچہ اس ریسرچ سے یہ معلومات نہیں فراہم ہو سکی ہیں کہ کتنی دیر کی جھپکی دماغی کار کردگی کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔ لیکن اس سے قبل کی تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ دماغی ٹیسٹوں میں سب سے اچھی کارکردگی اس وقت سامنے آئی جب ٹیسٹ سے قبل تیس منٹ یا اس سے کم دورانئے کی نیند لی گئی۔

یو کے اور نیدرلینڈز کی ایک سابق تحقیق سے ظاہر ہوا تھا کہ 65 سال سے زیادہ عمر کے ایک تہائی افراد باقاعدگی سے نیپ لیتے تھے۔ سوتے وقت ہمارا دماغ معلومات کو یاد کرتا اور ان پر کام کرتا ہے۔ ہمارا جسم نامیاتی مادے کو صاف کرتا اور اپنی مرمت کرتا ہے۔ جس سے ہم جاگنے کے بعد صحیح طرح سے کام کر سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ انتہائی کم عرصے کیلئے بھی نیند سے محرومی ہماری صحت کو متاثر کر سکتی ہے۔ ہم میں سے اکثر کا ایک رات نہ سونے کے باعث برا حال ہو جاتا ہے اور نیند کے بغیر تین راتوں کے بعد ہمارا کام بری طرح سے متاثر ہوتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ دوپہر کے وقت نیند لینے سے ڈیمنشیا اور الزائمر جیسی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔ کیونکہ تحقیقات سے معلوم ہو چکا ہے کہ نیند کی کمی زیادہ تر ذہنی اور دماغی بیماریوں کی وجہ بنتی ہے۔