حسام فاروقی :
رمضان المبارک میں شہریوں سے مال بٹورنے کی خاطر ایک بار پھر کراچی پر گداگروں کی یلغار شروع ہوگئی ہے۔ ہزاروں گداگروں پر مشتمل سینکڑوں چھوٹے بڑے گروپ سینکڑوں شہر میں پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔
پیشہ ور بھکاریوں میں سب سے بڑی تعداد عورتوں اور مختلف عمر کے بچوں کی ہے، جنہیں یہ گروپس کرائے پر اپنے ہمراہ لے کر کراچی پہنچے ہیں۔ ان عادی بھکاریوں نے رمضان و عید سیزن کمانے کیلئے کراچی کے 5 مضافاتی علاقوں میں ڈیرے ڈالے ہیں۔ اس معاملے میں تاحال انتظامیہ کی جانب سے ہر سال کی طرح اس سال بھی اس بھکاری مافیا کو روکنے کے لئے کوئی حکمت عملی ترتیب نہیں دی گئی ہے۔
کراچی میں رمضان سیزن لگانے کیلئے گداگروں کے بیشتر گروپس جنوبی پنجاب کے علاقوں رحیم یار خان، صادق آباد، علی پور، خان پور، ملتان، گھوٹکی اور سندھ کے علاقوں تھرپارکر، بدین، کشمور، شہداد کوٹ، ٹھٹھہ، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو آدم، مورو، کنری، نوکوٹ اور ڈگری سے پہنچے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی میں پہلے سے موجود بھکاریوں اور رمضان سیزن کمانے کے لئے آنے والے بھکاریوں کی مجموعی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ کے قریب ہے جس میںمزید اضافہ ہوگا۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ بھکاری اس رمضان کے سیزن میں کراچی والوں سے 15 ارب روپے سے زائد کی خطیر رقم صرف بھیک کی مد میں کما کر جائیں گے۔
اگر ایک بھکاری رمضان میں 5 ہزار روپے یومیہ بھی کماتا ہے تو یہ ایک لاکھ بھکاری یومیہ50 کروڑ روپے کراچی کے باسیوں سے کمائیں گے اور رمضان کے تیس دنوں میں یہ رقم 15ارب روپے تک جاسکتی ہے۔ اس کمائی میں سے 40 فیصد ہر بھکاری اپنے ٹھیکیدار کو دینے کا پابند ہے، جس کے بدلے ٹھیکیدار انہیں کمائی والے علاقے دلوانے اور سا تھ ساتھ کسی بھی قسم کے لڑائی جھگڑے یا پولیس کی جانب سے تنگ کئے جانے کی صورت میں مدد فراہم کرنے کا پابند ہوتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کام میں بعض سیاسی شخصیات کے ساتھ ساتھ پولیس کے کچھ اعلیٰ افسران بھی ملوث ہیں، جنہیں بھکاری مافیا کو آپریٹ کرنے والے افراد سیزن کے درمیان ان کا حصہ پہنچائیں گے۔ ذرائع کے مطابق گداگری کے ٹھیکے جرائم پیشہ افراد اور پولیس دیتی ہے۔ اس کام کے لئے پولیس ایسے شخص کو استعمال کرتی ہے جو خود گداگری کے پیشے سے منسلک ہوتا ہے یا پھر گداگروں کا سردار ہوتا ہے جس کو گداگر، ٹھیکیدار کا نام دیتے ہیں۔ شہر میں مقامی گداگر ٹھیکیداری نظام کے تحت کام کررہے ہیں۔ جبکہ بیرون شہر سے آنے والے گداگروں کے بھی ٹھیکیدار ہوتے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ کراچی میں اس رمضان بھی گداگر مافیا، ٹھیکیداری نظام کے تحت اپنا نیٹ ورک چلا ئے گی۔ اس نظام کے تحت بھیک مانگنے والوں کو ٹریفک اور علاقہ پولیس تنگ نہیں کرے گی۔ دوران تحقیقات معلوم ہوا ہے کہ رمضان المبارک کا سیزن کمانے جو گداگر اندرون سندھ اور پنجاب سے کراچی آرہے ہیں، انہیں مچھر کالونی، موسی کالونی، لاسی گوٹھ، خدا کی بستی، اورنگی ٹائون، تین ہٹی کے قریب لیاری ندی کے ساتھ، ابراہیم حیدری اور شہر کے مضافات میں واقع کچی آبادیوں یا گوٹھوں میں کرائے کے مکان لے کر دئیے گئے ہیں۔ ان علاقوں میں قائم مکانوں کے کرائے مالک مکان نے کئی گنا بڑھا دئیے ہیں۔ کیونکہ انہیں بھی معلوم ہے کہ ان کا مکان جو لوگ کرائے پر لے رہے ہیں وہ گداگر ہیں اور سیزن کمانے کے لئے کراچی آئے ہیں۔ ماضی کی طرح اس سال بھی رمضان کے سیزن میں کراچی کو 8 ٹھیکیداروں میں تقسیم کیا گیا ہے اور یہ تقسیم پولیس افسران سمیت کئی سیاسی شخصیات کی جانب سے کی گئی ہے۔
ایک گداگر کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ، صدر کے علاقے کا ٹھیکہ اس بار بھی سردار لالو کے پاس ہے اور لالو نے اسلم نامی شخص سے یہ جگہ لی ہے۔ لالو کے پاس نعمان سینٹر کابھی ایک مخصوص علاقہ ہے جہاں وہ کسی دوسرے گداگر کو بھیک مانگنے نہیں دیتا ہے۔ اسی طرح کراچی کے دیگر علاقے گداگر مافیا کے سربراہوں نوید عرف نیدا، چوہدری ناصر، شانی، وقار سیٹھ عرف پائپ والا، تنویر عرف ٹنڈا، یعقوب بالا اور سیٹھ کمہار کے بیٹے شنکر میں تقسیم کئے گئے ہیں۔ کراچی میں ان ٹھیکیداروں کی کئی سال سے اجارہ داری قائم ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ گداگر جرائم کی وارداتیں بھی کرتے ہیں۔ منشیات کی ترسیل کا بھی ایک اہم ذریعہ یہی گداگر ہیں اور انہیں کسی بھی مقام پر کوئی بھی قانون نافذ کرنے والا ادارہ چیک نہیں کرتا ہے جس کی وجہ سے یہ منشیات کی کھیپ بھی با آسانی ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل کر دیتے ہیں۔ ان گداگروں میں اکثر کا تعلق ہندو برادری کی بھیل، کولہی ، میگھواڑ اور باگڑی قوموں سے ہے، جنہوں نے اپنے نام مسلمانوں والے رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ کراچی انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے ان بھکاریوں کو کنٹرول کرنے کیلیے اس بار بھی کوئی حکمت عملی ترتیب نہیں دی جا سکی ہے۔