ضیا چترالی:
’’ہنگری میں فی کلو آٹے کی قیمت 0.55 ڈالر، مصر میں 0.71 ڈالر، ترکیا میں 1.05 ڈالر، سعودیہ میں 2.92 ڈالر اور امریکا میں 3.62 ڈالر ہے۔ جبکہ غزہ میں وہی آٹا 25 ڈالر فی کلو ہے۔ لیکن وہ بھی صرف قسمت والوں کو ملتا ہے۔ تمام حربے ناکام ہونے کے بعد اب دشمن اہل غزہ پر بھوک کا ہتھیار آزما رہا ہے۔ وہاں کے حالات کا آپ تصور نہیں کرسکتے۔
مجاہدین تو ایک کھجور پر بھی گزارا کرلیں گے۔ لیکن عوام کیلئے اب اس عذاب کو سہنا آسان نہیں ہے…‘‘۔ یہ کہنا تھا مغربی ایشیا کیلئے فلسطینی اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے مسئول ڈاکٹر ابو عمر خالد قدومی کا۔ وہ پاکستان کے 3 روزہ دورے پر ہیں۔ اس موقع پر ’’امت‘‘ کی ٹیم کے ساتھ خصوصی ملاقات کی اور تفصیلی انٹرویو دیا۔ جس کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔ لیکن پہلے ڈاکٹر خالد قدومی کے تعارف پر چند سطور۔
ڈاکٹر ابو عمر خالد القدومی کا تعلق فلسطین مغربی کنارے کے شہر ’کفر القدوم‘ سے ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہاں آمد سے اس علاقے کا نام ’قدوم‘ پڑ گیا۔ یہ قلقلیہ شہر کے نزدیک ہے۔ ڈاکٹر خالد قدومی حماس کے سیاسی ونگ میں سینئر رہنمائوں میں سے ہیں۔ کئی اہم عہدوں پر رہے۔ خالد مشعل کے ساتھ پہلے شام (سوریا) میں تھے۔ لیکن وہاں جب عوامی تحریک شروع ہوئی تو بشارالاسد نے حماس سے مطالبہ کیا کہ وہ حکومت کا ساتھ دے۔ لیکن حماس نے عوام کیخلاف حکومتی قتل عام کی حمایت سے انکار کر دیا تو دونوں میں حالات کشیدہ ہوگئے اور حماس قیادت کو شام چھوڑنا پڑا۔ کوئی قطر چلا گیا تو کوئی ترکیا وغیرہ۔ اس کے بعد ڈاکٹر خالد قدومی کو مغربی ایشیا (ایران، پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان) کیلئے حماس کا مسئول و ترجمان مقرر کیا گیا۔ انہوں نے تعلیم پاکستان میں ہی حاصل کی ہے۔ بہاولپور یونیورسٹی سے 1994ء میں ایم بی بی ایس کیا۔ اس لئے انگریزی و عربی کے ساتھ اردو بھی بڑی روانی سے بولتے ہیں۔ انٹرویو میں ان کہنا تھا۔
’’7 اکتوبر کے حملے میں اسرائیل کو مجاہدین نے اندر سے تقریباً ختم کر دیا تھا۔ اس کی معیشت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔ اگر امریکا اور اسرائیل کے دیگر حامی ممالک نہ ہوتے تو معاملہ نمٹ چکا تھا۔ خیر و شر کے معرکے تو سجتے رہتے ہیں۔ یہ تاریخ کا حصہ ہے۔ جنگیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ مگر بے سر و سامان مجاہدین نے سب سے بڑی علاقائی طاقت اور نیوکلیئر پاور ملک کو جیسا ذلیل کیا اور اس کے غبارے سے جس طرح ہوا نکال دی۔ اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔
انجام چاہے جلد ہو یا بدیر، بہرحال مجاہدین نے اسرائیل کے زوال کا سنگ اول رکھ دیا ہے۔ یہ کوئی ہوائی بات یا زبانی دعویٰ نہیں۔ بلکہ ’لعنۃ القرن الثامن‘ (آٹھویں دہائی کی لعنت) ایک حقیقت ہے۔ جسے تمام اسرائیلی قیادت بھی تسلیم کرتی ہے۔ مطلب یہ کہ تاریخ میں اب تک یہودیوں کی جتنی ریاستیں بنی ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی 8 دہائیوں سے زیادہ عرصہ نہیں چلی۔ 2028ء کو اسرائیل کی بھی 8 دہائیاں پوری ہو رہی ہیں۔ امید ہے 2028ء کے بعد اسرائیل اپنا وجود باقی نہیں رکھ سکے گا‘‘۔
موجودہ صورتحال پر ڈاکٹر قدومی کا کہنا تھا: ’’چھٹا مہینہ شروع ہوگیا کہ غزہ میں صہیونی وحشت و درندگی کا سلسلہ جاری ہے۔ بظاہر یہ ظلم و بربریت ختم یا کم ہونے کے کوئی آثار نہیں۔ لیکن یہ اس کا آخری مرحلہ چل رہا ہے۔ جس میں صہیونی قوت اپنا آخری حربہ اہل غزہ پر آزما رہا ہے۔ اسرائیل کی جنگی کونسل نے جو منصوبہ تشکیل دیا تھا۔ اس کے 4 مراحل تھے۔ ان سب کا مقصد غزہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا تھا۔ تاکہ عوام مجاہدین کا ساتھ چھوڑ دیں اور مجاہدین اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیں۔ ان کی قیادت گرفتاری دے دے اور اپنی شکست کو تسلیم کرلیں۔
پہلے مرحلے میں تباہ کن بمباری اور وحشیانہ قتل عام کا تھا۔ جس سے شہر کا 85 فیصد حصہ تباہ اور ایک لاکھ تک لوگوں کو قتل و زخمی کرنا اور ڈیڑھ ملین تک کو بے گھر کرنا تھا۔ جس کے نتیجے میں مزاحمت بھی ختم ہو جاتی اور باقی ماندہ جنگجو ہتھیار ڈال دیتے اور صہیونی ریاست اپنی جیت کا اعلان کر دیتی۔ لیکن وحشت و درندگی کے تمام تر ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ مگر اہل غزہ کی مزاحمت، صبر و استقامت، برداشت و تحمل، ثبات اور عزم میں کوئی کمی نہیں آئی۔ مجاہدین میدان میں ڈٹے رہے اور صہیونی درندوں کے لیے پیغام اجل ثابت ہوتے رہے اور عوام نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس لیے یہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔
اگلا مرحلہ گرفتاری، تشدد اور تذلیل کا تھا۔ چنانچہ غزہ کے ہزاروں نہتے شہریوں کو گرفتار کیا گیا۔ انہیں جنگجو باور کرایا گیا۔ ان پر بے پناہ تشدد کیا گیا اور ان سے اہلخانہ کے سامنے ذلت آمیز سلوک کیا گیا۔ حتیٰ کہ بے شمار لوگوں کو قتل بھی کر دیا گیا اور خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔ مگر مزاحمت کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی اور یہ مرحلہ بھی بری طرح ناکام ہوگیا۔
اس کے بعد کا مرحلہ تھا غزہ سے نقل مکانی کی راہ ہموار کرنے کا۔ دجالی قوتوں کا پلان یہ ہے کہ فلسطینیوں کو دربدر کرکے صحرائے سینا میں بسایا جائے۔ مگر سخت جاں اہل غزہ کی بے مثال ثابت قدمی نے اسے بھی تقریباً ناکام بنا دیا ہے۔ فلسطینیوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ انہیں بے دخل اور دربدر کرنے کیلئے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ یہ نکبہ ثانیہ ہے۔ اس لئے ان کا ایک ہی نعرہ ہے: ’ہم یہیں مریں گے اور غزہ نہیں چھوڑیں گے‘۔ اور اب چوتھا اور آخری مرحلہ درپیش ہے۔ جو بھوک اور بیماری کا مرحلہ ہے۔
اہل غزہ کی خوراک، دوا اور پانی روک دیا گیا۔ دکانوں پر بمباری کی گئی۔ کھیت جلادیئے گئے اور مویشیوں کو ہلاک کیا گیا۔ تاکہ ان کیلئے قوت لایموت کے تمام راستے بند ہوجائیں اور وہ مجبور ہوکر خود ہی تحریک مقاومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ یہ مرحلہ اہل غزہ کا سخت ترین امتحان ہے۔ خصوصاً شمالی غزہ میں غذائی قلت کے باعث اب لوگ بھوکوں مر رہے ہیں۔ ادویات نہ ہونے سے مختلف امراض کا شکار لوگوں کی جان شدید خطرے میں ہے۔ امدادی سامان تو دور کی بات۔ غزہ کے دکانداروں کا باہر سے منگوایا ہوا سامان داخل ہونے نہیں دیا جا رہا۔ جنوب میں تو پھر بھی صورتحال زیادہ سنگین نہیں۔ مگر شمال میں حالات بہت ہی گمھبیر ہیں۔
یہاں تک کہ 7 لاکھ افراد کے بھوکوں مرنے کا خطرہ ہے۔ صہیونی فوج کی جانب سے روزانہ شمال والوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ وہ یہاں سے جنوب کی طرف کوچ کر جائیں۔ مگر یہ 7 لاکھ افراد یہاں ڈٹنے اور مرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ کیونکہ انہیں پتہ ہے علاقہ مکمل طور پر خالی کرنے کا مطلب شکست تسلیم کرنا ہے۔ پھر تو مزاحمت بھی ختم ہو جائے گی۔ اب شمال والوں کی ثابت قدمی کا نتیجہ یہ ہے کہ جارحیت کا چھٹا مہینہ شروع ہوگیا ہے۔ مگر شمال سے اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں پر میزائل اور راکٹ پھینکنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اسرائیل دھمکیوں کے ساتھ شمالی غزہ والوں کو ہر طرح کا لالچ بھی دے رہا ہے کہ وہ مجاہدین کی مخبری کریں اور صہیونی فوج کو ان کا ٹھکانہ بتا دیں۔ مگر اسے اب تک کوئی کامیابی نہیں ملی‘‘۔
خالد قدومی کا مزید کہنا تھا کہ ’’رب کے فضل و کرم سے مجاہدین اگلے 10 برس تک بھی صہیونی ریاست کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتے ہیں اور وہ اس کیلئے تیار بھی ہیں۔ وہ یومیہ ایک کھجور کھا کر بھی لڑ لیں گے۔ ہم امت مسلمہ کے مشترکہ دشمن کو منہ دینے کی پوزیشن میں ہیں۔ ہمیں اور دشمن کی فکر چھوڑ دیں۔ ہماری امت مسلمہ سے صرف اتنی گزارش ہے کہ وہ اپنے مظلوم مسلمان بہن بھائیوں کو سنبھال لیں۔ اب ہم دشمن کا مقابلہ کرنے کے ساتھ لوگوں کی غذائی ضرورت پورا کرنے سے عاجز ہیں۔ وہاں صورتحال یہ ہے کہ قلت کی وجہ سے ہر چیز بلامبالغہ سونے کی قیمت پر بک رہی ہے۔
آپ اندازہ لگا لیجئے کہ پیاز کی قیمت 35 شیکل فی کلو تک پہنچ چکی ہے۔ ایک ڈالر 3.8 شیکل (اسرائیلی کرنسی) کا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ 10 ڈالر کا فی کلو پیاز ہے۔ لیموں کی قیمت 20 سے 25 شیکل فی کلو ہے۔ جو تقریباً 10 ڈالر کے برابر ہے۔ یہ میں آپ کو جنوب یعنی رفح کی بات بتا رہا ہوں۔ جہاں نسبتاً اشیائے خورونوش کی ’فراوانی‘ ہے۔ شمالی غزہ کا آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ جہاں امدادی و تجارتی سامان پہنچنے نہیں دیا جا رہا۔
رفح میں صورتحال اتنی ابتر ہے تو شمال میں اس سے بھی کہیں زیادہ بدتر۔ آپ اندازہ لگایئے کہ مصر میں آٹا 0.71 ڈالر فی کلو ہے۔ اس سے چند قدم کے فاصلے پر غزہ جائیں تو وہی آٹا 25 ڈالر فی کلو۔ ایک تو قلت تو دوسرا ڈالر بنانے والی مافیا کا راج۔ جس نے موقع غنیمت سمجھ کر ڈالر بنانا شروع کر دیا ہے۔ ہماری اولین کوشش یہ ہے کہ لوگوں کو کسی نہ کسی طرح موت کے منہ میں جانے سے بچائیں۔ اگر کچھ روز قبل چند ٹرک آٹا کا انتظام کر لیا۔ اب بھی ٹرک کھڑے ہیں۔ لیکن ہمارے پاس وسائل نہیں۔ اس لئے مسلمانوں سے اپیلیں کر رہے ہیں۔ کیونکہ یہ آخری مرحلہ آر یا پار والا ہے۔ اس میں امت مسلمہ نے اگر ساتھ نہ دیا تو پھر خاکم بدہن کچھ بھی ہوسکتا ہے۔