ارشاد کھوکھر:
وزیر اعظم اور صدر مملکت کے انتخابات کے بعد اگلا مرحلہ سینیٹ اور سینیٹ چیئرمین کے انتخابات کا ہے۔ نئی سینیٹ میں اتحادیوں کا غلبہ ہوگا ۔ الیکشن کے بعد ایوان بالا میں اتحادیوں کی تعداد تقریباً 58 ہوگی۔جبکہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ سینیٹرز کی تعداد بھی 28 سے 30 ہوسکتی ہے۔
آئندہ سینیٹ کے ایوان میں جماعت اسلامی ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، مسلم لیگ فنکشنل (جی ڈی اے) کی نمائندگی نہیں رہے گی۔ جو 52 سینیٹرز ریٹائر ہوئے ہیں، ان میں اتحادی جماعتوں کے سینیٹرز کی تعداد تقریباً 26 ہے۔ اپریل میں سینیٹ کی 48 نشستوں پر جو نئے انتخابات ہوں گے ان میں سے حکمراں اتحاد کے 34 نئے سینیٹرز منتخب ہوسکتے ہیں۔
سینیٹ انتخابات کے حوالے سے سندھ ، بلوچستان اور اسلام آباد میں حکمراں اتحاد کا نمبر گیم پورا ہے۔ مذکورہ انتخابات کے حوالے سے اصل معرکہ پنجاب اور کے پی کے میں ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق 10 مارچ کو جو 52 سینیٹرز مدت پوری ہونے کے باعث ریٹائرڈ ہوچکے ہیں، ان میں فاٹا کی نشستوں پر 2018 میں منتخب ہونے والے 4 سینیٹرز بھی شامل ہیں۔ اب شمالی علاقہ جات ، کے پی کے کی صوبائی حکومت کا حصہ بن جانے کے باعث سینیٹ میں فاٹا کی الگ نمائندگی نہیں ہوگی۔
اس طرح باقی 48 نشستوں پر اپریل میں نئے انتخابات ہوں گے۔ جن میں سندھ اور پنجاب میں بارہ ، بارہ ، کے پی کے اور بلوچستان میں گیارہ ، گیارہ اور اسلام آباد سے دو سینیٹرز شامل ہیں۔ جو سینیٹرز ریٹائر ہوئے ہیں ان میں موجودہ حکمراں اتحاد کے 26 سینیٹرز شامل ہیں۔ جن میں سے مسلم لیگ نواز کے 13، پیپلز پارٹی کے 12اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کا ایک سینیٹر فروغ نسیم شامل ہیں۔
حکمراں اتحاد سینیٹ کے نئے انتخابات میں 48 میں سے کم سے کم اپنے نئے 34 سینیٹرز منتخب کرانے کی پوزیشن میں ہے۔ اس حوالے سے سندھ میں پوزیشن واضح ہے۔ سندھ میں 12 میں سے پیپلز پارٹی کے 10 سینیٹرز باآسانی منتخب ہوجائیں گے۔ جبکہ باقی دو سینیٹرز بھی متحدہ کے منتخب ہوسکتے ہیں۔ سندھ میں اپوزیشن اتحاد کو سینیٹ کی ایک بھی نشست ملنے کا امکان نہیں۔
اسی طرح بلوچستان اسمبلی جو پارٹی پوزیشن ہے ، اس کے تحت 11 میں سے 9 نشستوں پر حکومتی اتحاد کا نمبر گیم پورا ہے۔ جن میں سے پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کے چار، چار اور بلوچستان عوامی پارٹی کا ایک سینیٹر بآسانی منتخب ہوجائے گا۔ بلوچستان اسمبلی میں جے یو آئی ف کی 12 نشستیں ہیں۔ اس لئے جنرل نشست پر جے یو آئی ف کے ایک سینیٹر منتخب ہونے کا راستہ کلیئر ہے۔ جبکہ باقی ایک سینیٹر کے لئے جوڑتوڑ ہوگی۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ نشست نیشنل پارٹی کو ملتی ہے یا وہ بھی حکمراں اتحاد کے حصے میں آتی ہے۔
اس حوالے سے اسلام آباد کی دونوں نشستیں بھی حکمراں اتحاد کے حصے میں آئیں گی۔ جس میں سے ایک نواز لیگ اور ایک پر پیپلز پارٹی کا امیدوار کامیاب ہوگا۔ اس طرح اصل مقابلہ کے پی کے اور پنجاب میں ہے۔ مذکورہ اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی خالی 25 نشستوں کا معاملہ حل ہونا باقی ہے۔ اگر وہ نشستیں سنی اتحاد کونسل کو مل گئیں تو کے پی کے سے ایس آئی سی کے 10 سینیٹرز منتخب ہوجائیں گے۔ اور ایک سینیٹ کی سیٹ اتحادی حکومت کے حصے میں آئے گی۔
اگر مذکورہ نشستیں دیگر جماعتوں کو مل گئیں تو پھر پی ٹی آئی کے صرف 7 سینیٹرز منتخب ہوسکیں گے۔ اگر مخصوص نشستوں کے بغیر انتخابات ہوئے تو اس صورت میں بھی سنی اتحاد کونسل کے 9 سینیٹر ، جے یو آئی ف کا ایک اور اتحادی حکومت کا ایک سینیٹر منتخب ہوگا۔ جبکہ پنجاب میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی وغیرہ کو الاٹ ہوچکی ہیں۔ جنہوں نے صدارتی انتخابات میں بھی ووٹ کاسٹ کیا۔ اس اعداد و شمار کو سکھا جائے تو پنجاب میں 12 میں سے سنی اتحاد کونسل کو صرف دو جنرل نشستیں مل سکتی ہیں۔ باقی 10 نشستیں حکمراں اتحاد کے حصے میں آئیں گی۔ اگر وہ خالی مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کے حصے میں آئیں تو پھر پنجاب میں سنی اتحاد کونسل کے 2 کے بجائے 5 سینیٹرز منتخب ہوسکتے ہیں۔
اس وقت جو صورتحال ہے اس کو مدنظر رکھا جائے تو سنی اتحاد کونسل کے 11 نئے سینیٹرز منتخب ہوسکتے ہیں جس سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ سینیٹرز کی تعداد 28 ہوجائے گی۔ اس طرح پیپلز پارٹی کے 16 نئے سینیٹرز کے ساتھ ایوان بالا میں تعداد 25 ، نواز لیگ 15 نئے سینیٹرز کے ساتھ 20، بلوچستان عوامی پارٹی کی پوزیشن ایک نئے سینیٹر کے ساتھ 7، متحدہ قومی موومنٹ کے دو نئے سینیٹرز کے ساتھ پوزیشن 4 ہوجائے گی جبکہ حکومتی اتحاد میں شامل مسلم لیگ ق کے سینیٹر کامل علی آغا کی مدت 2027 تک ہے۔ اس طرح 96 کے ایوان میں حکومتی اتحاد کی تعداد 57 سے 58 تک ہوجائے گی۔ اور اپوزیشن کی تعداد 38سے 39 ہوگی جس میں جے یو آئی ف ، اے این پی ، بی این پی مینگل و آزاد اراکین بھی شامل ہوں گے۔ چیئرمین سینیٹ کے منصب پر کامیابی کے لئے کسی بھی امیدوار کو زیادہ سے زیادہ 49 ووٹ درکار ہوں گے۔ اس حوالے سے حکومتی اتحاد کا نمبر گیم واضح ہے۔ تاہم یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ پیپلز پارٹی کا جو نیا چیئرمین سینیٹ منتخب ہوگا اس کا تعلق بلوچستان سے ہوگا یا اسلام آباد سے۔