انتہا پسندی کی نئی تعریف میں مروجہ نظام کی عدم پیروی بھی ڈال دی گئی، فائل فوٹو
انتہا پسندی کی نئی تعریف میں مروجہ نظام کی عدم پیروی بھی ڈال دی گئی، فائل فوٹو

برطانوی مسلمان پھر مذہبی تعصب کا نشانہ

شایان علی :
برطانیہ میں انتہا پسندی کی نئی تعریف کو مسلمان شہریوں کے خلاف اقدامات سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ برطانیہ میں مروجہ نظام کی عدم پیروی بھی شدت پسندی کے زمرے میں ڈال دی گئی ہے۔ جبکہ رشی سونک حکومت میں ہاؤسنگ اور کمیونٹیز کے وزیر مائیکل گوو نے یہ متنازع منصوبہ پیش کیا، جو خود اسلام مخالف مانے اتے ہیں۔ نئی تعریف کو 5 اسلامی تنظیم نے متفقہ طور پر شہری آزادی پر حملہ قرار دے دیا۔

رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں انتہاپسندی کی نئی تعریف متعارف کروائی گئی ہے جسے فوری طور پر لاگو کیا جائے گا۔ نئی تعریف میں دوسروں کے بنیادی حقوق اور آزادی کی نفی یا تباہی کو بھی انتہاپسندی کی تعریف کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ برطانیہ کی لبرل پارلیمانی جمہوری نظام اور جمہوری حقوق کو کمزور کرنا یا انہیں تبدیل کرنے کی کوشش کرنا بھی نئی تعریف میں شامل کیا گیا ہے۔

تشدد اور عدم برداشت پر مبنی نظریات کو فروغ دینے والے گروپس کو حکومتی فنڈنگ سے روک دیا جائے گا۔ انتہاپسندی کی نئی تعریف کے معاملے پر اپنے ردعمل میں مسلم کونسل آف بریٹن کا کہنا تھا کہ نئی تعریف سے مسلم کمیونٹی نشانہ بنے گی۔ برطانیہ کے مسلمان گروپوں نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اس کی جانب سے انتہاپسندی کی نئی تعریف کا منصوبہ اختلافات کو ہوا دے گا اور اس کی وجہ سے دوسرے لوگ بدنام ہوں گے۔

عرب نیوز کے مطابق برطانوی حکومت نے جمعرات کو انتہاپسندی کے حوالے سے قانون سازی میں ترامیم کے لیے تجاویز پیش کی تھیں۔ موجودہ تعریف کے مطابق ’برطانوی اقدار کے خلاف آواز اٹھانے یا پھر سرگرم ہونے‘ کو انتہا پسندی مانا جاتا ہے۔ نئی تعریف کے بعد اس میں نفرت پر مبنی نظریات کی ترویج، عدم برداشت یا تشدد، دوسروں کی آزادی اور جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے نکات شامل ہو جائیں گے۔

پانچوں تنظیموں کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ ’’انتہاپسندی کی جس نئی تعریف سے مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے یہ ہماری تکثیری جمہوریت کے اہم سنگ بنیاد پر حملہ کرتی ہے جو بولنے کی آزادی ہے۔ پانچ تنظیمیں کیج انٹرنیشنل، فرینڈز آف الاقصٰی، دی مسلم ایسوسی ایشن آف بریٹن، مسلم انگیجمنٹ اینڈ ڈویلپمنٹ اور فائیو پلرز کا کہنا ہے کہ ’’یہ تجاویز شہری آزادیوں پر حملہ ہیں۔ یہ قانون کی پاسداری کرنے والے ایسے لوگوں کو ’انتہاپسند‘ قرار دیتا ہے جو حکومت کی پالیسی کی مخالفت کرتے ہیں۔‘‘

خیال رہے کہ جمعرات کو برطانیہ نے یہودیوں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم میں اضافے کے بعد انتہا پسندی کی نئی تعریف متعارف کروائی تھی، جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا تھا کہ یہ آزادی اظہار رائے پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔

رواں ہفتے کے آغاز میں کینٹربری اور یارک کے آرک بشپس نے کہا تھا کہ ’’اس منصوبہ بندی کا نشانہ برطانوی مسلمان بن سکتے ہیں۔ انتہا پسندی کی نئی تعریف متعارف کرنے والے محکمے کے وزیر مائیکل گوو نے رواں ماہ کے آغاز میں خبردار کیا تھا کہ لندن میں فلسطینیوں کے حق میں مارچ کا اہتمام انتہاپسند تنظیموں نے کیا تھا۔

برطانوی وزیر مائیکل گوو کا کہنا تھا کہ عدم برداشت کو فروغ دینے والے گروپس کی فنڈنگ روکی جائے گی، مسلمانوں اور یہودیوں کے خلاف بڑھتے جذبات سے نمٹیں گے۔