پی ٹی آئی نے 4 مارچ کو الیکشن کمیشن میں انٹرا پارٹی الیکشن کی تفصیلات جمع کرائی تھیں، فائل فوٹو
پی ٹی آئی نے 4 مارچ کو الیکشن کمیشن میں انٹرا پارٹی الیکشن کی تفصیلات جمع کرائی تھیں، فائل فوٹو

خیبرپختونخوا سے سینیٹرز منتخب کرانا پی ٹی آئی کا اصل امتحان

محمد قاسم:
صوبہ خیبرپختون سے اپنے سینیٹرز منتخب کرانا پی ٹی آئی کا اصل امتحان ہوگا۔ ذرائع کے مطابق تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا سے سینیٹ کیلئے جن امیدواروں کے ناموں کی منظوری دی ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ پی ٹی آئی محاذ آرائی کی سیاست مزید گرم رکھنا چاہتی۔ مراد سعید اور اعظم سواتی کو ٹکٹ دینے کا مطلب اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان بات چیت کا امکان ختم ہورہا ہے۔

پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق مراد سعید کے کاغذات کی عدم منظوری کی صورت میں اظہر مشوانی امیدوار ہوں گے۔ جنرل نشست پر مراد سعید کے علاوہ فیصل جاوید، ارب پتی مرزا احمد آفریدی، عرفان سلیم اور خرم ذیشان کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ خواتین نشستوں پر عائشہ بانو اور روبینہ ناز امیدوار ہوں گے۔ اعظم سواتی کے کاغذات نامزدگی منظور نہ ہونے پر ارشد حسین امیدوار ہوں گے۔

ذرائع نے بتایا کہ صوبائی وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کیلئے ان سینیٹرز کو جتوانا مشکل ہوگا۔ کیونکہ ہر رکن پانچ ووٹ کاسٹ کرتا ہے۔ جبکہ خیبرپختون میں فی ووٹ کی قیمت 10 کروڑ سے شروع ہوتی ہے۔ مخصوص نشستوں پر پشاور ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد پی ٹی آئی ارکان کیلئے آزادی ہوگی کہ ان کے خلاف پارٹی کارروائی نہیں کرسکتی۔

ذرائع کے مطابق سینیٹ میں امیدواروں کے انتخاب کے حوالے سے سب کی نظریں خیبرپختونوا پر تھیں۔ پی ٹی آئی نے محاذ آرائی والوں کو ٹکٹ دے کر پیغام دیا ہے کہ وہ کسی ادارے کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار نہیں۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے اندرونی اختلاف سینیٹ میں پی ٹی آئی کیلئے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق خیبرپختون اسمبلی میں اراکین مرزا احمد آفریدی اور اعظم سواتی کیمپ یعنی ووٹ گروپ میں جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جہاں سے پیسے ملنے کے ساتھ ساتھ پارٹی کے ساتھ وفادار بھی رہا جاسکتا ہے۔ کیونکہ مراد سعید، اظہر مشوانی، فیصل جاوید، عرفان سلیم اور دیگر کے پاس پیسے نہیں۔ جبکہ وزارتوں سے محروم اراکین اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا چاہتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق اس وقت سب سے زیادہ خطرہ ان اراکین سے ہے جنہیں وزارت سے محروم رکھا گیا ہے۔ اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ صوبے کے خالی خزانے کی وجہ سے انہیں دو تین سال تک کوئی فنڈ نہیں ملنا۔ اس لئے 50 کروڑ سینیٹ انتخابات میں مل سکتے ہیں۔ جبکہ کئی اراکین علی امین گنڈا پور سے بدلہ لینے کے اس موقع کو ضائع نہیںکریں گے اور پارٹی کے وفادار یہ اراکین اپنا ووٹ ضائع کرسکتے ہیں۔ تاکہ گنڈا پور کے خلاف مزید دبائو ڈال سکیں۔ اگر پی ٹی آئی 90 اراکین کے باوجود مطلوبہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی تو مزید اختلافات پیدا ہوسکتے ہیں۔

اہم ذرائع کے مطابق علی امین نے مشکوک اراکین کو مراد سعید، فیصل جاوید، عرفان سلیم، عائشہ بانو کے گروپ میں ڈالنے کی منصوبہ بندی کی ہے کہ اگر یہ امیدوار ناکام ہوتے ہیں تو ان اراکین کے خلاف کارروائی کرنے میں آسانی ہوگی اور یہ اراکین مستقبل میں علی امین کے خلاف کوئی سازش نہیں کرسکیں گے۔

ذرائع کے بقول آئندہ دس روز میں سب کچھ سامنے آجائے گا۔ دوسری جانب اپوزیشن نے اپنے زیادہ سے زیادہ امیدواروں کو کامیاب بنانے کیلئے سرجوڑ لئے ہیں۔اگر پیپلز پارٹی نے ماضی کی طرح دائو کھیلا تو پی ٹی آئی کو سخت نقصان ہوسکتا ہے۔ جبکہ پی پی نے ایمل ولی کو بلوچستان سے سینیٹر بنانے کا اعلان کرکے دائو کھیلنا شروع کردیا ہے۔ آئندہ چند روز میں پی ٹی آئی کے ان اراکین سے رابطوں کا آغاز کیا جائے گا جنہوں نے ماضی میں پیپلز پارٹی کی طرف سے انتخاب لڑا ہے اور پی پی کی مقامی قیادت کے ساتھ اب بھی رابطوں میں ہیں۔

ادھر بعض ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ مراد سعید اور اعظم سواتی 9 مئی کے واقعات میں مطلوب ہیں اوران کے کاغذات عام انتخابات میں مسترد ہو چکے ہیں۔ لہذا اب بھی ان کے کاغذات کے مسترد ہونے کا امکان بہت زیادہ ہے۔