بیوپاریوں نے اسلحہ لائسنس کا مطالبہ کر دیا، فائل فوٹو
 بیوپاریوں نے اسلحہ لائسنس کا مطالبہ کر دیا، فائل فوٹو

بھینس کالونی جرائم کا گڑھ بن گئی

اقبال اعوان:
لانڈھی بھینس کالونی جرائم کا گڑھ بن گئی ہے۔ ایشیا کی سب سے بڑی بھینس کالونی ہونے کے باوجود جرائم پر قابو پانے کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے جارہے ہیں۔ دودھ، گوشت اور جانوروں کے بیوپاریوں نے اسلحہ لائسنس کے لئے مطالبہ کردیا۔ چند روز قبل گوالوں کی شروع کی جانے والی رجسٹریشن کا کام بعض پولیس افسران کی تبدیلی کے بعد سردخانے کی نذر ہوگیا۔

ڈیری اور کیٹل فارمرز رہنمائوںکا کہنا ہے کہ مذکورہ علاقے میں ایک تھانہ اور محدود نفری انتہائی ناکافی ہے۔ دودھ اور گوشت کے بیوپاریوں میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ شہر سے دور ہونے کی وجہ سے یہاں پر کاروبار کرنا مشکل ہورہا ہے کہ شہر بھر سے زیادہ جرائم ادھر ہورہے ہیں۔

واضح رہے کہ بھینس کالونی میں 5 ہزار ڈیری فارم ہیں جہاں ایک اندازے کے مطابق 5 لاکھ سے زائد گائے بھینیس رکھی گئی ہیں۔ یہاں پر سال بھر لگنے والی مویشی منڈی میں سالانہ لگ بھگ 20 لاکھ جانور گائے بیل ، بھینس، بکرے ، دنبے ملک کے مختلف شہروں سے لائے جاتے ہیں جو یہاں کی مرکزی کے ایم سی کے سلاٹر ہائوس پر کاٹے جاتے ہیں جن کا گوشت شہر بھر میں سپلائی ہوتا ہے۔ جبکہ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے لئے کٹائو جانور بھی ادھر سے شہری خرید کر لے جاتے ہیں۔ شہر بھر میں یہاں سے دودھ سپلائی کیا جاتا ہے جو شہر بھر کی سپلائی کا تقریباً نصف 35 لاکھ لیٹر سے زائد ہوتا ہے۔ یومیہ 5 ہزار جانور کاٹ کر گوشت شہر میں بھیجا جاتا ہے ۔

اس طرح یہاں پر دودھ ، گوشت، جانوروں کی ترسیل کا ایونٹ 24 گھنٹے چلتا ہے۔ سپر ہائی وے اور نیشنل ہائی وے سے جانور اس منڈی میں آتا ہے تو راستے میں ٹائون عملہ اور دیگر جانوروں کو چیک کرنے کے نام پر بھتہ وصول کرتے ہیں۔ اب سالانہ 10 لاکھ جانور گائے بھینیس دودھ کے لئے آتی ہیں اور 10 لاکھ سے زائد گوشت کے لئے بڑے چھوٹے جانور لائے جاتے ہیں، ان میں کانگو وائرس یا دیگر جانوروں کی بیماریوں کو چیک نہیں کرتے ہیں بلکہ فی جانور بھتہ وصول کرتے ہیں۔

باڑوں پر اسلحہ کے زور پر جانور چھیننا، گوالوں یا مالکان کو لوٹنا، علاقے میں آنے والے دودھ، گوشت اور جانوروں کے بیوپاریوں، چارہ، دانہ، بھوسہ کے بیوپاریوں، شہریوں کو دن دہاڑے لوٹنا معمول بنتا جارہا ہے۔ کم از کم بھینس 6 لاکھ روپے مالیت کی ہوتی ہے۔ جبکہ گائے 3 سے 4 لاکھ کی ہوتی ہے۔ جانوروں کی آمد اور ادھر ادھر بھیجنے کے دوران گاڑیوں کو جانوروں سمیت لوٹا جارہا ہے اور جانور اغوا کرکے ’’بھونگ‘‘کے ذریعہ تاوان کی ڈیل کرکے واپس کئے جاتے ہیں۔

اس طرح 30 سے 40 فیصد تاوان کل رقم سے طلب کیا جاتا ہے۔ جانوروں کی چوری معمول ہے۔ ڈیری ایسوسی ایشن اس حوالے سے آگاہی کرچکی تھی کہ باڑوں پر کام کرنے والے 30 ہزار سے زائد گوالے جنوبی پنجاب یا اپر سندھ سے تعلق رکھتے ہیں۔ بعض کچے کے علاقے کے رہنے والے ہیں اور مشکوک ہیں کہ کچے کے ڈاکوئوں کے مخبر یا ساتھی محفوظ رہنے کے لئے باڑوں پر ملازمین یا گوالوں کا روپ دھارکر کام کر رہے ہیں۔ ان کی مکمل چھان بین کراکے پولیس سے کلیئرنس سرٹیفکیٹ لے کر ان کو رکھا جائے۔

اس بات پر کام شروع ہوا تھا تاہم چند دن بعد ختم کردیا گیا۔ بھینس کالونی سکھن تھانے کی حدود میں آتی ہے۔ جب کہ حدود خاصی وسیع ہے جس میں سلاٹر ہائوس ، مکمل بھینس کالونی، مویشی منڈی، مسلم لیگ کالونی، بختاور گوٹھ ، برکات مدینہ کالونی ، مشین ٹول فیکٹری، ایکسپورٹ پروسیسنگ زون، پورٹ قاسم انڈسٹریل ایریا۔ 11 عدد کمرشل بینک ، کچی آبادی ، ہندو بستی ، محمود گوٹھ سمیت 5 جیٹیاں موجود ہیں۔ شہریار ٹائون، اسلام ٹائون، لالہ آباد، خاصخیلی گوٹھ، لیبر اسکوائر ، 500 کوارٹرز ، 600 فلیٹس رند گوٹھ ، غلام قادر رند گوٹھ، جمعہ حمایتی گوٹھ ، جمعہ گوٹھ ، ریلوے اسٹیشن ایریا سمیت دیگر علاقے بھی شامل ہیں۔

یہاں پر غیر قانونی کام عروج پر ہیں۔ مرنے والے جانوروں سے چربی نکالنا ، ان کا گوشت کاٹ کر شہر بھیجنا، کٹے کا گوشت بکرے کے نام پر تیار کرکے شہر میں بھیجنا کہ وہاں ہوٹلوں پر مٹن کے نام سے فروخت ہوتا ہے۔ جانوروں کی چوری اور چھیننے کا سلسلہ زیادہ ہے۔ اب سکھن تھانے کی ایک موبائل ناکافی ہے جبکہ نفری بھی کم ہے۔

کراچی ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسسی ایشن کے صدر شاکر گجر کے مطابق، جرائم پیشہ افراد کے لئے یہ علاقہ سونے کی چڑیا ہے۔ بیوپاریوں نے پریشان ہوکر چیف سیکریٹری سندھ کو درخواستیں دیں کہ بیوپاریوں ، چارہ، بھوسہ، دانہ والوں ، ٹرانسپورٹ کے لوگوں اور دیگر کو اسلحہ لائسنس دیا جائے کہ خود بچائو کرسکیں۔ ان کی جانب سے وزیراعلیٰ سندھ کو درخواست دی گئی کہ گوالوں کی رجسٹریشن دوبارہ شروع کراکے مکمل کرائی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ مزید تھانے بناکر بھاری نفری تعینات کی جائے، شہر بھر میں یہاں سے گوشت ، دودھ ، جانور بھیجنے کا بڑا نیٹ ورک چلتا ہے۔