تحقیقات میں حساس ادارے شامل ہو گئے- سخت ترین کارروائیوں کا عندیہ دیدیا، فائل فوٹو
 تحقیقات میں حساس ادارے شامل ہو گئے- سخت ترین کارروائیوں کا عندیہ دیدیا، فائل فوٹو

انسانی اسمگلرز کے سہولت کار ایف آئی اے افسران کے گرد گھیرا تنگ

عمران خان :
انسانی اسمگلنگ کی سہولت کاری اور کرپشن میں ایف آئی اے اسلام آباد، کراچی اور بلوچستان زونز کے افسران سرفہرست آگئے۔ کراچی زون سے دو افسران نوکری سے برطرف کردیئے گئے۔ ڈائریکٹوریٹ جنرل آفس ہیڈ کوارٹر اسلام آباد کی جانب سے ملک سے 87 افسران کی ابتدائی فہرست مرتب کرلی گئی ہے۔ تحقیقات میں حساس ادارے شامل ہوگئے۔ نئے آنے والے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی جانب سے مستقبل قریب میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث گروپوں اور سہولت کار افسران کے خلاف سخت ترین کارروائیوں کا عندیہ دیا گیا ہے۔

’’امت‘‘ کو موصولہ دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ دنوں ایف آئی اے ڈائریکٹوریٹ جنرل اسلام آباد ہیڈ کوارٹرز سے ایک تفصیلی مراسلہ جاری کیا گیا۔ جس میں ملک بھر میں تعینات ایف آئی اے کے 87 افسران اور اہلکاروں کے نام شامل کیے گئے ہیں اور ان کے متعلقہ زونل افسران کی ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ ان افسران کو مستقبل کی پوسٹنگ کیلئے بلیک لسٹ کردیا گیا ہے۔ اس لئے انہیں کسی بھی صورت ملکی ایئرپورٹس، زمینی سرحدوں کی چیک پوسٹس اور بندرگاہوں پر امیگریشن کی ڈیوٹیوں کیلئے تعینات نہ کیا جائے۔ ساتھ ہی ان افسران اور اہلکاروں کو ایف آئی اے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکلز میں بھی تعیناتی کیلئے بلیک لسٹ قرار دیا گیا ہے۔

ذرائع کے بقول ابتدائی تحقیقات میں ملبہ ماتحت افسران پر گراکر سرکل انچارجز اور ڈیوٹی و شفٹ اچارجز کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حالانکہ ’’گڈ مارننگ‘‘ کے کوڈ ورڈ سے ایجنٹوں اور مشکوک دستاویزات پر جانے والوں سے وصول کی گئی رشوت کی رقم یہی ماتحت افسران وصول کرکے اوپر کے دفاتر میں بیٹھے افسران تک پہنچاتے رہے ہیں۔ ساتھ ہی انسانی اسمگلرز اور ایجنٹوں کے کیس خراب کرکے انہیں ریلیف دینے کے عوض وصول ہونے والی رقوم بھی برسوں سے نیچے سے اوپر پہنچتی رہی ہے۔

مذکورہ مراسلے میں سب سے زیادہ اسلام آباد زون کے 17 افسران اور اہلکار شامل ہیں۔ جن میں انسپکٹر وجاہت علی سلطان، ایس آئی ذکی الحسن شاہ، ایس آئی محمد عمران، ایس آئی عبداللہ جان، ایس آئی ولیم شہزاد، ایس آئی محمد ادریس، ایس آئی ریاض محمود خٹک، ہیڈ کانسٹیبل آفتاب احمد، ہیڈ کانسٹیبل ناظم مصطفی، ہیڈ کانسٹیبل عمر حمید، ہیڈ کانسٹیبل شہریار اقبال، ہیڈ کانسٹیبل فواد صادق، ہیڈ کانسٹیبل کامران خان، ایس آئی عاصم گلزار، ہیڈ کانسٹیبل نورالامین اور ہیڈ کانسٹیبل عارف اللہ شامل ہیں۔

دوسرے نمبر پر کراچی زون سے 16 افسران اور اہلکاروں میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر وصی اللہ بھٹو، آفس سپرنٹنڈنٹ رضوان صدیق، یو ڈی سی عباس علی، ہیڈ کانسٹیبل منظور سیال، ایس آئی عبدالحمید شیخ، کانسٹیبل طلحہ الدین، ہیڈ کانسٹیبل ناصر علی، ایس آئی فہیم اقبال شیخ، ایس آئی محمد علی ساوند، ایس آئی محمد رفیق، محمود علی جوکھیو، انسپکٹر غضنفر علی جونیجو، ایس آئی عنبرین نیاز، ہیڈ کانسٹیبل طارق سعید، ایس آئی شہزاد گل، ایس آئی زہرا چوہان اور اے ایس آئی منصور سلیمان شامل ہیں۔ ان میں سے 2 افسران ایس آئی فہیم اقبال شیخ اور محمود جوکھیو کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہے۔

تیسرے نمبر پر بلوچستان زون کے 14 افسران اور اہلکاروں میں انسپکٹر عابدہ مجید، ایس آئی صلاح الدین، اے ایس آئی احمد جان، شکیل احمد کاکڑ، اے ایس آئی اصغر خان، اے ایس آئی عبدالحلیم، ہیڈ کانسٹیبل شہزاد احمد، ہیڈ کانسٹیبل دولت خان، ہیڈ کانسٹیبل دائود خان، ہیڈ کانسٹیبل عبدالوحید، ہیڈ کانسٹیبل محمد عامر، ہیڈ کانسٹیبل شاہ محمد مری، ہیڈ کانسٹیبل سید نجیب اللہ اور کانسٹیبل مقصود احمد شامل ہیں۔ گوجرانوالہ زون سے 12 افسران اور اہلکاروں میں انسپکٹر وسیم اختر ڈار، ایس آئی مدثر محمود، ایس آئی نثر اقبال، ایس آئی دلاور حسین، اے ایس آئی محمد ارشاد، اے ایس آئی خالد مجید، ہیڈ کانسٹیبل فیصل محمود، ہیڈ کانسٹیبل محبوب شہزاد، ہیڈ کانسٹیبل محمد شمعون، ہیڈ کانسٹیبل عبدالوحید، کانسٹیبل سمیع اللہ اور کانسٹیبل احسان اللہ شامل ہیں۔

اسی طرح کوہاٹ پشاور زون کے 7 افسران اور اہلکاروں میں ہیڈ کانسٹیبل احسان اللہ، ہیڈ کانسٹیبل واجد خان، کانسٹیبل فیاض اللہ، کانسٹیبل اشفاق خان، ہیڈ کانسٹیبل شعیب الحسن، ہیڈ کانسٹیبل صدیق اکبر اور کانسٹیبل کامران سلیم شامل ہیں۔ ملتان زون کے 9 اہلکاروں میں ایس آئی حنا شیخ، کانسٹیبل وسیم قیصر، کانسٹیبل فہد اعوان، کانسٹیبل محمد رضوان، کانسٹیبل عابد حسین، ہیڈ کانسٹیبل محمد آصف، کانسٹیبل محمد شفیق، کانسٹیبل پرویز اختر، کانسٹیبل طلحہٰ تنویر شامل ہیں۔ لاہور زون کے 9 افسران و اہلکاروں میں ایس آئی اعجاز احمد، ایس آئی ثمینہ راشد، اے ایس آئی امجد جاوید، اے ایس آئی فیاض احمد، اے ایس آئی محمد اظہر زمان، ہیڈ کانسٹیبل صفدر علی، ہیڈ کانسٹیبل قیصر ذوالفقار، کانسٹیبل ریاض بشیر شامل ہیں۔ فیصل آباد زون کے 3افسران اور اہلکاروں میں اے ایس آئی محمد رضوان، ہیڈ کانسٹیبل ذیشان صدیق اور کانسٹیبل رائو مزمل بابر شامل ہیں۔

واضح رہے کہ چیک پوسٹس اور ایئرپورٹس پر بیرون ملک سے آنے اور جانے والے مسافروں کی کلیئرنس کی جاتی ہے۔ جبکہ ایف آئی اے کے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکلز میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایجنٹوں، غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والوں، جعلی دستاویزات کا استعمال کرنے والوں کے خلاف انسانی اسمگلنگ، امیگریشن اور پاسپورٹ ایکٹ کے قوانین کے تحت مقدمات درج کرکے قانونی کارروائیاں کی جاتی ہیں۔

اس طرح ایف آئی اے امیگریشن ایئرپورٹس اور چیک پوسٹوں پر تعینات افسران اور انسداد انسانی اسمگلنگ سرکلو ں کے درمیان چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ دونوں ہی جگہوں پر انسانی اسمگلنگ اور امیگریشن میں ہونے والی جعلسازیوں کی روک تھام کی کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ اکثر جب جعلی دستاویزات پر بیرون ملک جانے والوں کو ایئر پورٹس یا چیک پوسٹوں سے گرفتار کیا جاتا ہے تو انہیں مزید تفتیش کیلئے ایف آئی اے کے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکلز کے حوالے کیا جاتا ہے۔

اسی طرح جب بیرون ملک غیر قانونی طور پر جانے والوں کو واپس پاکستان ڈیپورٹ کیا جاتا ہے تو انہیں بھی مزید کارروائیوں کیلئے انسداد انسانی اسمگلنگ کے سرکلز کے سپرد کیا جاتا ہے۔ جہاں ان افراد کی نشاندہی پر ملوث ایجنٹوں کے خلاف مقدمات درج کیے جاتے ہیں۔ مذکورہ فہرست میں شامل افسران اور اہلکار گزشتہ کئی برسوں سے اپنے اعلیٰ افسران کیلئے ایئرپورٹس، چیک پوسٹوں اور سرکلز میں سیٹنگ بنا کر بیٹھے ہیں۔

اس دوران بلوچستان کے سرحدی علاقوں سے غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والوں کی سہولت کاری کے علاوہ حج اور عمرہ و زیارت کی آڑ میں بیرون ملک سلپ ہونے والے گروپوں کی معاونت کرتے رہے۔ جبکہ یورپ وغیرہ جانے والوں کی کلیئرنس بھی بھاری رشوت کے عوض کی جاتی رہی۔ ان کے خلاف کئی بار انکوائریاں ہوئیں اور دبائی جاتی رہیں۔ تاہم اس بار سنجیدگی سے انکوائری کیلئے دبائو اس وقت حکومتی اداروں پر پڑا جب بحیرہ روم میں لیبیا سے اٹلی جانے والی کشتی میں 700 سے زائد غیر قانونی تارکین وطن ڈوب گئے۔ جن میں 400 کے قریب پاکستانی شامل تھے۔ اس واقعے کے بعد اب تک ملک بھر میں انسانی اسمگلرز اور ان کے ایجنٹوں کیخلاف 200 کے قریب انکوائریاں اور مقدمات درج کیے گئے۔ جن میں 100 کے لگ بھگ مشتبہ ایجنٹوں کو حراست میں لیا گیا۔ تاہم 9 ماہ میں صرف ایک ملزم کو ہی عدالت سے سزا دلوائی جاسکی۔