محمد علی:
حال ہی میں ایک افریقی ملک نائجر نے امریکہ کے ساتھ فوجی تعاون معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں امریکی فوجیوں کی موجودگی اب ضروری نہیں۔
امریکا نے نائجر میں بھی نام نہاد دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کے نام پہلے نائجر کی فوج کو تربیت دی اور پھر یہاں اپنا فضائی اڈہ قائم کرلیا، جو دارالحکومت نیامے سے تقریبا 920 کلومیٹر دور ہے۔
یہ اڈہ 10 کروڑ ڈالر کی لاگت سے بنایا گیا، جس میں تقریباً ایک ہزار فوجی تعینات ہیں۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ امریکا کے فوجی نائجر سے جائیں گے یا نہیں، کیونکہ ایک بار جب امریکی فوج کسی ملک پر اپنے شکنجے گاڑ لیتی ہے تو اسے اپنا مستقل ٹھکانہ بنالیتی ہے۔
اس وقت دنیا کے 70 سے زائد ممالک میں ایک لاکھ 70 ہزار کے قریب امریکی فوجی موجود ہیں۔ ان ممالک میں ایک بات یہ مشترک ہے یہ کوئی عام لوکیشن پر واقع نہیں ہیں، بلکہ یہ امریکا کی حکمت عملی، سیکورٹی اور ڈپلومیسی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جیسا کہ نیٹو جیسے اتحاد کی حمایت سے لے کر تجارتی راستوں کی مانیٹرنگ اور روس اور چین کے اثرو رسوخ کا مقابلہ کرنا بھی اس حکمت عملی کا حصہ ہے۔ لیکن یہ سب اتنا اہم کیوں ہے؟
اگر آپ کا ملک امریکی فوجیوں کی میزبانی کر رہا ہے تو یہ ان ممالک کے ساتھ تعلقات کو پیچیدہ بنا سکتا ہے جو امریکا کی پالیسیوں کے خلاف ہیں۔ یہ سوال بھی قابل ذکر ہے کہ اپ کا ملک کتنا خود مختار ہے۔ اگر اسے اپنی سلامتی کے لیے کسی دوسری ریاست پر انحصار کرنا پڑ رہا ہو تو۔ کسی بھی ملک میں امریکی فوج کی موجودگی اس بات کی علامت ہے کہ آپ کا ملک کسی بڑی گلوبل اسٹوری کا حصہ ہے۔
جاپان، جرمنی، جنوبی کوریا، اٹلی اور برطانیہ میں سب سے زیادہ امریکی فوجی موجود ہیں۔ جبکہ اسپین، اردن، شام، عراق، سعودی عرب، یمن، متحدہ عرب امارات، فلپائن، بحرین، صومالیہ، کانکو قطر، کویت اور تائیوان میں بھی امریکی فوجی موجود ہیں۔
امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق واشنگٹن تائیوان میں اپنی عسکری موجودگی کا کھل کر اعتراف نہیں کرتا، لیکن گزشتہ دنوں تائیوان نے پہلی بار کہا ہے کہ امریکہ کے 100 سے 200 فوجی ملک میں موجود ہیں، جو چین کی ممکنہ جارحیت کے پیش نظر تائیوانی فوج کو تربیت دے رہے ہیں۔
ادھر جرمنی میں امریکی افواج تقریباً 75 برس سے موجود ہیں۔ امریکی دوسری جنگ عظیم کے بعد فاتح کے طور پر داخل ہوئی اور کچھ عرصے میں ہی جرمنی کی اتحادی بن گئی، لیکن یہ باہمی تعلق ہمیشہ ہموار نہیں رہا۔ جرمنی میں فی الوقت 34 ہزار 500 امریکی فوجی موجود ہیں۔
جرمنی رمیشٹائن ایئر بیس پر امریکی یوروپی کمانڈ اور یو ایس افریقہ کمانڈ کے صدر دفتر جیسی اہم امریکی فوجی سہولیات کی میزبانی کر رہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑا امریکی اڈہ قطر میں واقع ہے جسے العدید ایئر بیس کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ 1996 میں بنایا گیا تھا۔ امریکا بہادر ایک طرف جہاں دنیا بھر میں اپنی فوج کی موجودگی بڑھا رہا ہے وہیں امریکا کے اندر یو ایس آرمی اپنی فورس کا حجم 24 ہزار یا تقریباً 5 فیصد تک کم کر رہی ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق تنظیم نو اگلی اہم جنگ بہتر طور پر لڑنے کے قابل ہونے کے لیے کی جا رہی ہے، بھرتیوں کی کمی نے فوج میں تمام آسامیاں پر کرنا ناممکن بنا دیا ہے۔ امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ کٹوتی فعال افواج کے بجائیصرف ان اسامیوں میں کی جا رہی ہے جو پہلے ہی خالی ہیں، کٹوتی انسداد دہشت گردی فورسز میں ہوگی جن کی ضرورت نہیں۔ اسپیشل آپریشن فورسز میں 3 ہزار کی کٹوتی کی جائے گی، منصوبے میں دیگر اہم مشنز میں 7500 فوجیوں کا اضافہ شامل ہے، افرادی قوت میں اضافہ ایئر ڈیفنس اور کاؤنٹر ڈرون یونٹس میں ہو گا۔
امریکی میڈیا کے مطابق دنیا بھر میں 5 نئے ٹاسک فورسز قائم کرنا منصوبے میں شامل ہے، ٹاسک فورسز کو جدید، سائبر، انٹلیجنس اور لانگ رینج اسٹرائیک کی صلاحیتوں سے آراستہ کیا جائے گا۔ امریکی فوجی دستاویز کے مطابق کٹوتی خالی جگہوں کی ہو گی چہروں کی نہیں، فوج کسی اہلکار کو فورس چھوڑنے کا نہیں کہے گی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی فوج میں اسامیاں 4 لاکھ 94 ہزار ہیں جبکہ فعال فورسز کی تعداد 4 لاکھ 45 ہزار ہے، نئے پلان کے تحت اگلے 5 سال میں فعال فورسز کی تعداد 4 لاکھ 70 ہزار کی جائے گی۔