فائل فوٹو
فائل فوٹو

ڈونالڈ ٹرمپ برائے فروخت

امت رپورٹ:

امریکی جریدے بلومبرگ کے سینئر ایگزیکٹو ایڈیٹر ٹموتھی ایل او برائن نے ایک مضمون لکھا ہے، جس کا لب لباب یہ ہے کہ فراڈ کیس میں ساڑھے پینتالیس کروڑ کے بھاری جرمانہ کی ادائیگی کے بجائے اپنی خالی جیب کا رونا رونے والے ڈونلڈ ٹرمپ ملکی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ کیونکہ وہ یہ رقم جمع کرنے کے لیے بیرونی عناصر سے ملکی مفادات کا سودا بھی کرسکتے ہیں کہ ان کا ٹریک ریکارڈ یہی رہا ہے۔

ٹموتھی برائن اپنے مضمون میں لکھتے ہیں ’’خود کو ارب پتی کہلوانے والے اور قرض کے بادشاہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کے پاس اتنی رقم نہیں کہ وہ فراڈ کیس میں سنائی جانے والی 454 ملین ڈالر جرمانے کی سزا کے خلاف اپیل کر سکیں۔ اس اپیل کے لیے انہیں یہ رقم یا اتنی مالیت کے اثاثے رکھوانا قانونی ضرورت ہے۔ یقیناً یہ ایک شرم ناک صورت حال ہے۔ ٹرمپ کی خالی جیبیں جہاں اس امکان کو بڑھاتی ہیں کہ ان کی ریئل اسٹیٹ، گولف کورسز اور تیل کے ذخائر پر مشتمل اثاثوں پر ایک بدترین مالیاتی دباؤ پڑ سکتا ہے۔ وہیں ٹرمپ کو درپیش ان مالی چیلنجز نے انہیں قومی سلامتی کے لیے خطرہ بنا دیا ہے، جو کہ دو ہزار سولہ میں ان کے صدر منتخب ہونے کے بعد سے ہی ایک حقیقت ہے۔

ٹرمپ، جنہوں نے اپنے کاروبار کے لیے صدر رہتے ہوئے غیر ملکی حکومتوں اور عہدیداروں سے لاکھوں ڈالر اکٹھے کیے تھے۔ انہوں نے ’’برائے فروخت‘‘ کی یہ تختی اب بھی ہٹائی نہیں ہے۔ موجودہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے وہ کچھ بھی بیچ سکتے ہیں‘‘۔

مضمون میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’خفیہ دستاویزات کو غلط طریقے سے استعمال کرنے اور انہیں فلوریڈا کے پام بیچ میں واقع اپنے گھر میں چھپانے کے الزام میں ٹرمپ کے خلاف فوجداری مقدمہ چل رہا ہے۔ خفیہ دستاویزات گھر لے جانے سے متعلق ٹرمپ کے محرکات معلوم نہیں ہیں، لیکن یہ سوچا جاسکتا ہے کہ آیا انہوں نے یہ دستاویزات بیچنے کی کوشش تو نہیں کی؟ آخر کار وائٹ ہاؤس کو رقم کمانے کا ذریعہ بنانا بھی تو ٹرمپ کا ایک خاندانی معاملہ رہا ہے۔

مثال کے طور پر ان کے داماد جیرڈ کشنر، سابق صدر کے ساتھ اپنی قربت کی وجہ سے مالی تجارت میں مصروف ہیں۔ اوول آفس میں ٹرمپ کے پہلے قیام کے دوران اور اس کے بعد یہ سب کچھ کافی پریشان کن تھا۔ حالانکہ تب وہ اس قسم کے مالی دباؤ میں نہیں تھے جس کا وہ اب سامنا کر رہے ہے۔ یوں ان کے تمام موجودہ مالیاتی حربے یقینی طور پر پہلے سے بھی زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں‘‘۔

ٹموتھی برائن نے چند سوال بھی اٹھائے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’کیا ٹرمپ نے امریکا میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے کے معاملے کی اس لیے مخالفت نہیں کی۔ کیونکہ ان کے ایک بڑے عطیہ دہندہ جیف یاس کی چینی کمپنی میں بڑی سرمایہ کاری ہے؟

کیا ٹرمپ نے ایلون مسک سے ملاقات کی، جو ایک امیر کاروباری شخص ہے جس کے آٹوموٹو، مواصلات اور خلائی تحقیق کے اثاثے وفاقی حکومت کے ساتھ قریبی کاروباری اور مالی تعلقات پر انحصار کرتے ہیں، کیونکہ انہیں فراڈ کیس کے جرمانے کے لئے فوری طور پر رقم اکٹھا کرنے کی ضرورت تھی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو جواب طلب ہیں۔ ٹرمپ کے ووٹروں کو اس بارے میں سوچنا چاہیے کہ اگر ٹرمپ نومبر میں دوبارہ صدر منتخب ہو جاتے ہیں تو وہ کس کے مفادات کی خدمت کریں گے‘‘۔

نیویارک کے اٹارنی جنرل لیٹیا جیمز ، جنہوں نے ٹرمپ کے خلاف بینکوں اور دیگر اداروں سے دھوکے کے ذریعے قرض لینے کا مقدمہ کامیابی سے چلایا، پچیس مارچ کو ٹرمپ کے اثاثے ضبط کر سکتے ہیں، تاکہ ان سے جرمانے کے 454 ملین ڈالر وصول کئے جا سکیں۔ ٹرمپ اس فیصلے کے خلاف اپیل کر رہے ہیں، لیکن پھر بھی عدالت کے حتمی فیصلے تک انہیں جرمانے کی رقم بطور ضمانت رکھوانی ہوگی۔ جبکہ ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں یومیہ ایک لاکھ بارہ ہزار ڈالر سود لگتا رہے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ جب ٹرمپ اپیل کرتے ہیں تو جرمانے کی رقم اور سود دونوں کو پورا کرنے کے لیے انہیں کم از کم 500 ملین جمع کرنا پڑ سکتے ہیں۔

تین روز پہلے عدالت میں دائر کی گئی درخواست میں ٹرمپ کے وکلا نے کہا کہ اس فیصلے کے تحت انہیں ایک بلین ڈالر کے نقد ذخائر کی ضرورت ہوگی اور ان کے پاس رقم نہیں ہے۔ ٹرمپ نے پچھلے سال ایک بیان کے دوران گواہی دی تھی کہ ان کے پاس ’’چار سو ملین سے زیادہ کی نقدی ہے، جو ہر ماہ کافی حد تک بڑھ رہی تھی۔‘‘ یہ یا تو غلط تھا یا ٹرمپ، جو جھوٹ بولنے کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں، اپنے پیسے کے استعمال سے گریز کرنا چاہتے ہیں۔

ٹرمپ حال ہی میں مصنف ای جین کیرول سے ہتک عزت کا کیس بھی ہار گئے تھے۔ جس پر عدالت نے انہیں بھاری جرمانہ عائد کیا۔ اس ادائیگی کو ملتوی کرنے کے لیے انہوں نے 91.6 ملین ڈالر کا بانڈ پوسٹ کیا۔ جبکہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل بھی کر ر ہے ہیں۔ یہ بانڈ ایک بڑی بیمہ کنندہ چب ( Chubb) لمیٹڈ کی ذیلی کمپنی کی طرف سے زر ضمانت کے طور پر تھاکہ اگر ٹرمپ جرمانہ کی رقم ادا نہ کرسکے تو وہ ذمہ دار ہوگی۔

عدالت میں دائر درخواست میں ٹرمپ نے نیویارک میں اپنی رئیل اسٹیٹ کی تفصیلات منسلک کیں، جس میں 40 وال اسٹریٹ، ٹرمپ ٹاور، ٹرمپ نیشنل گالف کلب ہڈسن ویلی اور ٹرمپ پارک ایونیو شامل ہیں۔ بیمہ کمپنی چب، غالباً مطمئن تھی کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ ان اثاثوں کو ضبط کر سکتی ہے۔

لیکن اسی بیمہ کمپنی نے فراڈ کیس میں 454 ملین ڈالر کے جرمانہ کے لیے ٹرمپ کا ضامن بننے یا ان کو ا سپانسر کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے عدالت میں فائل کئے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے بانڈ حاصل کرنے کے لیے 30 کمپنیوں سے رابطہ کیا تھا لیکن وہ خالی ہاتھ آئے۔ لہذا جرمانہ کی رقم کو کم یا ختم کیا جائے۔

دوسری صورت میں، انہیں ادائیگی کے لیے اپنی کچھ جائیدادوں کو اونے پونے بیچنا پڑے گا۔ بلومبرگ نیوز کے مطابق، ٹرمپ کے اثاثوں کی مجموعی مالیت تقریباً 3.1 بلین ڈالر ہے۔ اس میں سے زیادہ تر غیر منقولہ رئیل اسٹیٹ ہیں، خاص طور پر شہری جائیدادیں جو پہلے ہی شہر کے نواح میں ہونے کی وجہ سے اس وقت اپنی اصل قیمت سے کم ہیں۔ پھر یہ کہ ٹرمپ کو ہمیشہ اپنے اثاثوں پر بہت زیادہ قرض لینے کا بھی شوق رہا ہے۔

ٹموتھی برائن کے بقول ٹرمپ کو چار دیگر مقدمات کا سامنا بھی ہے۔ ممکنہ قرض دینے والے یا خریدار، ٹرمپ کی ان مشکلات سے بخوبی واقف ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ مجبور حالت میں ان کے پاس جائیں گے تو انہیں سازگار شرائط پر ڈالر ملنے کا امکان نہیں ہے۔ ٹرمپ آرگنائزیشن کی پیچیدگی بھی راستے میں آ جائے گی۔

ٹرمپ آرگنائزیشن کی کارپوریٹ چھتری کے نیچے تقریباً 415 شیل کمپنیوں اور دیگر آپریٹنگ اداروں کا ایک حصہ موجود ہے، حالانکہ ان میں سے صرف 70 سے ہی آمدنی ہو رہی ہے۔ ٹرمپ کا نام ان عمارتوں پر بھی ہے جو دوسروں کی ملکیت ہیں۔ اس لیے امکان ہے کہ ٹرمپ کے لیے یہ سفر مشکل ہو جائے گا، اور وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مالی طور پر مزید مایوس ہو جائیں گے۔ یہ صورت حال انہیں قرض دینے میں دلچسپی رکھنے والو ں کا آسان شکار بنادے گی۔ ساتھ ہی وہ امریکی پالیسی پر اثر انداز ہونے کے خواہشمند عناصر کے مفادات کے لیے بھی ایک آسان ہدف ہوں گے۔

اسی تناظر میں وہ ملکی سلامتی کے لیے مزید خطرناک ہوسکتے ہیں۔ ان کی حالیہ مجبوری کا فائدہ اٹھا کر اس وقت ملک یا بیرون ملک انہیں کوئی بھی خرید کر اپنے مفادات کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔ یہ خطرہ یوں زیادہ سنگین ہوجاتا ہے کہ وہ نومبر میں ممکنہ طور پر دوبارہ صدر بن سکتے ہیں۔