محمد علی :
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ماسکو حملے کے بعد قوم سے خطاب کیا اور متاثرین سے بھرپور ہمدری و یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جنہوں نے بھی یہ سفاکانہ اور دہشت گردانہ حملہ کیا ہے۔ انہیں سخت سزا دیں گے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ روسی صدر نے مغربی میڈیا رپورٹس اور پروپیگنڈے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کسی مسلم گروپ کو ماسکو حملے کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا۔ نہ ہی کسی نام نہاد جہادی گروپ کا اپنی تقریر میں نام لیا۔ روسی خبر رساں ادارے اسپٹنک نیوز کے مطابق روس نے ماسکو حملے کو کسی مسلم گروپ کی کارروائی ماننے سے انکار کردیا ہے۔
اسپٹنک نیوز نے کہا کہ ماسکو حملہ مسلم ممالک میں روس کی ماضی کی مداخلتوں کا ردعمل نہیں۔ بلکہ اس کا زیادہ تعلق یوکرین میں نیٹو کے خلاف جنگ سے ہے۔ چونکہ حملہ آور نقاب پوش نہیں تھے اور ان کا چہرہ واضح طور پر دیکھا جاسکتا تھا۔ اس لیے داعش سے ذمہ داری قبول کرانے کی چال چلی گئی۔ حالانکہ یہ کرائے کے قاتل تھے۔ جنہوں نے پیسوں کیلئے کارروائی کی اور فرار ہونے کی کوشش کی۔
روسی نیوز ایجنسی کے مطابق گرفتار حملہ آوروں میں سے 3 تھوڑی بہت روسی زبان بولنا جانتے ہیں۔ جبکہ ایک کو روسی زبان بالکل نہیں آتی۔ روسی زبان جاننے والے ایک حملہ آور فریدالدین شمس الدین نے انکشاف کیا کہ اس نے پیسوں کیلئے حملہ کیا۔ جس کیلئے اسے ٹیلی گرام پر بغیر نام والے شخص کا ایک میسیج موصول ہوا اور اس کے کارڈ پر رقم بھی ٹرانسفر کی گئی۔ ہینڈلر، جو خود کو ’’مبلغ کا معاون‘‘ کہتا تھا، نے شمس الدین سے کہا کہ لوگوں کو مار ڈالو، چاہے کوئی بھی ہو۔
رپورٹ کے مطابق چاروں زیر حراست افراد کا تعلق تاجکستان سے ہے۔ جو مبینہ طور پر یاروسلاول، ایوانوو اور سمارا کے علاقوں میں رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں سے کسی کے پاس بھی روسی پاسپورٹ نہیں ہے۔ مشتبہ افراد ماسکو کے شمال میں ایک ہاسٹل میں رہ رہے تھے، جو دہشت گردانہ حملے سے تقریباً ایک ماہ قبل یہاں آئے تھے۔ چاروں حملہ آور کرائے کے قاتل تھے، جنہیں عقیدے، پیسے اور منشیات سے بھڑکا کر استعمال کیا گیا۔
رپورٹ میں روسی سیکورٹی فورسز کی غفلت کا بھی اعتراف کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ کہا گیا ہے کہ امریکا نے گمراہ کن انٹیلی جنس معلومات فراہم کیں۔ دستیاب انٹیلی جنس کو روسی حکومت کے ساتھ مناسب طریقے سے اس لیے شیئر نہیں کیا گیا، تاکہ اس کے ماخذ کو ظاہر نہ کیا جا سکے۔ تاہم تاجکستان سے تعلق رکھنے والے متشبہ افراد کی یوکرین فرار ہونے کی کوشش بھی معنی خیز ہے۔
واضح رہے کہ حملہ آوروں کو ماسکو سے 340 کلو میٹر دور بائرانسک خطے گرفتار کیا گیا تھا، جہاں سے یوکرین کی سرحد 100 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یوکرین فرار کی کوشش سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یوکرین کو دہشت گردی کی سازش کا علم تھا۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ امریکا نے 7 مارچ کو اپنے شہریوں کو جو ایڈوائزری جاری کی تھی اس کی بنیاد روس کے بجائے یوکرین میں اپنے ذرائع سے حاصل کی گئی۔ یہ بھی یاد رہے کہ امریکا روس میں اپنے شہریوں کو معمول کے تحٹ الرٹس اور سفری ہدایات جاری کرتا رہتا ہے۔
دوسری جانب تحقیقاتی کمیٹی نے کہا کہ دہشت گردوں نے آتش گیر مائع کا استعمال کرتے ہوئے کنسرٹ ہال کے احاطے میں آگ لگائی تھی۔ تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ لوگوں کی موت گولی لگنے اور چھ ہزار نشستوں والے ہال میں آگ لگنے کے بعد سانس کے ذریعے دھواں اندر جانے کی وجہ سے ہوئی۔ اس شخص کو ایوارڈ دیا جائے گا جس نے کنسرٹ کے شرکا پر فائرنگ کرنے والے ایک مسلح شخص پر چھلانگ لگا کر اسے روکنے کی کوشش کی اور اپنے آس پاس کے لوگوں کی زندگیاں بچائیں۔
رپورٹ کے مطابق روس ایک طرف جہاں مختلف عالمی محاذوں پر امریکا اور اس کے حواریوں کی مخالفت کر رہا ہے وہیں اس نے حال ہی میں عالمی ہم جنس پرست تحریک یعنی انٹرنیشنل ایل آر جی بی ٹی موومنٹ کو دہشت گردوں اور شدت پسندوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ روسی سپریم کورٹ کی جانب سے جنوری میں ہم جنس پرستی کو جرم قرار دیئے ہوئے اس پر پابندی لگائی۔ جبکہ فروری میں اس نوعیت کے دو مقدمات میں بھاری جرمانے عائد کیے گئے۔ اس اثنا میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ کسی بھی مسلم ملک میں روس کی مخالفت یا نفرت کیوں پائی جائے گی؟