محمد قاسم :
حزب اسلامی کے سربراہ گل بدین حکمتیار اور طالبان حکومت کے درمیان دو روز سے جاری مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں۔ جس کے بعد حزب اسلامی کے سربراہ نے اپنی رہائش گاہ واقع دارالامان خالی کرنا شروع کر دیا ہے۔
حزب اسلامی کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ افغان طالبان نے حزب اسلامی کے سربراہ کو بتایا تھا کہ گزشتہ حکومت نے دارالامان میں ان کو جو رہائش گاہ اور دفاتر دیئے تھے۔ یہ وزارت دفاع کی ملکیت ہے اور کمیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ وزارت دفاع کی ملکیت والی زمین وزارت دفاع کو واپس کی جائے۔ لہٰذا وہ اپنی رہائش گاہ اور دفاتر خالی کریں۔ جس پر حزب اسلامی نے طالبان ، حکومتی اہلکاروں کو بتایا کہ انہیں ماضی کی حکومت نے ایک معاہدے کے تحت وزارت دفاع کی اجازت سے سیکیورٹی کے سبب رہائش گاہ عارضی طور پر دی تھی۔ تاہم افغان طالبان نے انہیں رہائش گاہ خالی کرنے اور شیر نو میں رہائش گاہ فراہم کرنے کی درخواست کی۔
گزشتہ تین روز سے اس حوالے سے مذاکرات جاری تھے۔ حزب اسلامی کے سربراہ نے کسی بدمزگی سے بچنے کیلئے رہائش گاہ اور دفاتر خالی کرانے پر آمادگی ظاہر کی اور پیر کے روز سے سامان شہر نو میں منتقل کرنا شروع کردیا ہے۔ تاہم طالبان حکومت کے اس اقدام پر حزب اسلامی کے کارکنوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔
ذرائع کے مطابق طالبان کے وزارت انصاف کے وزیر، عبدالحکیم حقانی کی سربراہی میں قائم ایک کمیٹی کابل میں زمینوں کے حوالے سے کام کر رہی ہے اور یہ طالبان سربراہ مولوی ہیبت اللہ کے قریبی ساتھیوں پر مشتمل ہے۔ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ اور وزیر داخلہ سراج الدین حقانی گل بدین حکمتیار کو شہر نو منتقل کرنے کے حق میں نہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ وزارت دفاع مولوی یعقوب کو گل بدین حکمتیار کی رہائش گاہ الاٹ کرنا چاہتی ہے اور اس نے اشرف غنی حکومت کا معاہدہ منسوخ کردیا ہے۔ طالبان نے حزب اسلامی کے سربراہ گل بدین حکمت یار کے ساتھ جو زبانی معاہدہ کیا تھا۔ اس کی بھی خلاف ورزی کی گئی اور ان کی جان کو لاحق خطرات میں اضافہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق قندھار گروپ کے اتحادی نے کابل میں اہم سرکاری رہائش گاہوں پر نظریں جمالی ہیں۔
وزیر اکبر خان سمیت دارالامان میں سرکاری رہائش گاہوں پر قبضے کے بارے میں ذرائع نے بتایا کہ قندھار گروپ نے طالبان مخالفین کے خلاف کارروائی تیز کردی اور حزب اسلامی کے سربراہ سے رہائش گاہ واپس لینا اس سلسلے کی کڑی ہے۔ اس کے باوجود کہ حکمت یار کی زندگی کو داعش سے خطرہ ہے اور کئی بار دارالامان میں بھی ان پر حملے ہوئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اس سے قبل گزشتہ ہفتے سابق صدر حامد کرزئی کو کابل سے جرمنی جانے سے روک دیا گیا تھا۔ حامد کرزئی کے قریبی ذرائع کے مطابق سابق افغان صدر اپنے تین بیٹوں کی درخواست پر جرمنی جانا چاہتے تھے۔ کیونکہ ان کا تعیلیمی سال شروع ہو رہا ہے۔ تاہم انہیں کابل ایئرپورٹ سے واپس کردیا گیا۔ اس سے قبل ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی رہائش گاہ سے بھی سیکیورٹی ہٹالی گئی تھی۔
ذرائع کے مطابق طالبان اپنے مخالفین کے خلاف کارروائی شروع کرکے داعش کے خلاف اپنی ناکامیوں کو چھپانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ داعش کی روس، ایران میں کارروائیوں کی وجہ سے طالبان سے تعاون کرنے والے ممالک کی ناراضگی پریشان کن ہے اور وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کی صلاحیت پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق کابل میں عوام میں حکومت کے خلاف بے چینی پائی جاتی ہے۔ جبکہ ان پالیسیوں پر قطری گروپ اور قندھار گروپ کے درمیان اختلافات بڑھ رہے ہیں۔
قطر میں مذاکرات کرنے والے طالبان رہنمائوں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر پابندی ختم کی جائے۔ حزب اسلامی، کرزئی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو حکومت میں شامل کرکے طالبان حکومت دنیا کیلیے خود کو قابل قبول بنائے۔ تاہم مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ اور ملا حسن گروپ جس کو قندھار گروپ کہا جاتا ہے، نے یہ درخواست مسترد کرکے اپنی پرانی پالیسیاں نافذ کرنا شروع کردی ہیں۔ قطر گروپ کے مطابق اس وقت روس، ایران اور چین کی حمایت یوکرین اور فلسطین کی جنگ کی وجہ سے ہے۔ جب یہ جنگیں ختم ہوجائیں گی تو پھر طالبان پر دبائو بڑھے گا۔ جسے برداشت کرنا مشکل ہوجائے گا۔