اقبال اعوان :
پتنگ بازی اور پتنگ و ڈور کی فروخت کیخلاف کارروائی کو کراچی پولیس نے ’’کمائی‘‘ کا ذریعہ بنا لیا۔ نمائشی کریک ڈائون شروع کر کے دکانوں سے بھتہ دوگنا کردیا۔ شہر میں تیز دھار ڈور سے گلے کٹنے کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔
گلشن حدید میں دو معصوم بہنوں سمیت شہر کے دیگر علاقوں میں نوجوان اس کا شکار ہو چکے ہیں۔ بار بار پابندی کے باوجود پولیس سرپرستی میں یہ کاروبار چلتا رہتا ہے۔ آج کل پتنگ بازی کا سیزن ہے۔ کراچی میں تیاری کے ساتھ ساتھ ڈور اور پتنگیں لاہور، فیصل آباد سے بھی آرہی ہیں۔
دکانداروں کا کہنا ہے کہ پولیس سیٹنگ کے بعد جب بھتہ ادا کریں گے تو گاہکوں سے اضافی قیمت وصول کریں گے۔ واضح رہے کہ پتنگ بازی کا سلسلہ آج کل شہر میں خاصا بڑھ گیا ہے۔ شہر میں جہاں دیگر شوق کم ہوئے، وہیں سیزن کے دوران پتنگ بازی کا سلسلہ بڑھ گیا۔ رمضان میں ٹائم پاس کا جواز بنا کر بچے اور نوجوان زیادہ تر چھتوں پر پتنگیں اڑاتے ہیں کہ ماضی کی طرح میدان میسر نہیں ہیں۔ شہر میں جو تھوڑے بہت میدان ہیں تو قبضہ مافیا والے جہاں قبضہ کر رہے ہیں، وہاں کرکٹ، فٹ بال سمیت دیگر کھیل والے میدان بھر دیتے ہیں۔
شہر میں اونچی عمارتوں، فلیٹوں کی وجہ سے پتنگ بازی کا سلسلہ کم نہیں ہو سکا ہے۔ اب لوگ اپنی حیثیت کے مطابق پتنگ اور ڈور خرید کر استعمال کرتے ہیں۔ لیاقت آباد، سرجانی، کورنگی، ملیر میں اب بھی پتنگ بازی پر انعام رکھا جاتا ہے۔ شہر میں پنجاب کی طرح بالخصوص لاہور کی طرح دھاتی ڈور کا استعمال بہت کم ہے۔ پتنگ کے ساتھ جو مانجھا استعمال ہوتا ہے اس سے پتنگ کاٹی جاتی ہے، اب مانجھا جتنا تیز ہو گا اس طرح دوسری پتنگ جلدی کاٹے گا۔
مختلف مانجھے استعمال ہوتے ہیں۔ بعض کراچی میں تیار ہوتے ہیں بعض لاہور یا دیگر شہروں سے آتے ہیں۔ کراچی میں ایمپریس مارکیٹ میں پہلے مرکزی مارکیٹ تھی جو ختم کر دی گئی تھی اور بعد میں دکاندار رینبو سینٹر اطراف کی عمارتوں کی دکانوں میں منتقل ہو گئے تھے اور اب بھی ایمپریس مارکیٹ کے اطراف میں بڑی ہول سیل دکانیں ہیں۔ جہاں سے کاروبار آن لائن بھی ہوتا ہے جبکہ دکاندار اور شہری خرید کر لے جاتے ہیں۔
سیکڑوں اقسام کی پتنگیں مختلف قیمتوں پر ملتی ہیں اسی طرح مانجھا اور دھاگہ جس کو ’’سدی (SADHI)‘‘ بولتے ہیں فروخت ہورہی ہیں۔ یہ سال بھر چلنے والا کاروبار ہے۔ جب کراچی میں کسی موٹر سائیکل والے کا گلا کٹتا ہے اور ہلاکت کے بعد اس کاروبار کو چند روز بند کرایا جاتا ہے اور اس کو زیادہ تر پولیس سرپرستی میں بعض علاقوں میں سیاسی پارٹی والے بھی سرپرستی کرتے ہیں۔ شہر میں دکانوں کی تعداد 5 ہزار سے زائد ہے جبکہ کئی علاقوں میں پتنگ ڈور اور مانجھا بنایا جاتا ہے۔ پلوں، اوور ہیڈ برج، میدان، سڑکوں، چورنگیوں، گھروں اور اونچی عمارتوں کی چھتوں سے سہ پہر چار بجے سے مغرب کی اذان تک پتنگ بازی کا سلسلہ خاصا بڑھ چکا ہے۔
پتنگ بازی کے دوران جو پتنگ ادھر ادھر اٹک گئی یا کٹ گئی تو ان میں بعض کو پکڑ لیا جاتا ہے، جس کو بچے پتنگ لوٹنا بولتے ہیں جبکہ جو ادھر ادھر تاروں، کھمبوں، پلوں، اونچی عمارتوں، درختوں میں اٹک جاتی ہے اس کا مانجھا سڑکوں، گلیوں کے اوپر اٹک جاتا ہے جو خونیں ڈور کا کام کرتا ہے۔ موٹر سائیکل والے اس کا شکار ہوتے ہیں اور زیادہ تر گلے کٹتے ہیں اور ہٹانے کے دوران ہاتھ زخمی ہوتے ہیں۔
کراچی میں زیادہ تر لوگ بچوں کو ٹنکی پر بٹھاتے ہیں اور بچے آگے ہونے پر زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ گلا کٹنے کی صورت میں فوری طبی امداد کا ملنا مشکل ہوتا ہے اور موت واقع ہو جاتی ہے۔ موٹر سائیکل پر آگے شیشہ نما شیلٹر یا بریکٹ نما چھجہ نہیں ہوتا اس لیے بچائو کے لیے بچوں کو آگے بٹھانے سے منع کیا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں پنجاب میں نوجوان کی گردن خونی ڈور سے کٹ گئی جس کے بعد پنجاب بھر میں پتنگ فروشوں اور پتنگ بازوں کے خلاف بھرپور کریک ڈائون شروع کر دیا گیا۔ جس کے بعد کراچی میں مقامی پولیس کو پیداگیری کا جواز مل گیا۔
موبائلوں اور موٹر سائیکلوں کا استعمال جرائم پیشہ کو پکڑنے کے لیے کم ہوتا ہے تاہم شہر میں ہر علاقے کے اندر پتنگ فروشوں کی دکانوں پر ہلہ بول دیا اور کہا کہ سیٹنگ کر کے چلائو۔ کسی وقت بھی پابندی لگ سکتی ہے۔ دکانوں پر پتنگیں، ڈور، مانجھے کو اندر کر دیا گیا اور واضح رکھنے پر روک تھام کر دی گئی۔ اب پولیس ان سے سیٹنگ کر رہی ہے جبکہ لیاقت آباد، ملیر، کورنگی، شاہ فیصل کالونی میں پتنگ اڑانے والوں کو گرفتار کرنے کی دھمکی دی گئی اور پتنگیں اڑانے سے روک دیا گیا۔ رینبو سینٹر کے دکانداروں کا کہنا ہے کہ کراچی میں خونیں ڈور کے حادثے کے بعد پولیس نامعلوم کے خلاف مقدمہ درج کرتی ہے۔ زیادہ تر مقدمہ نہیں کرایا جاتا ہے اور ورثا بغیر کارروائی کے لے جاتے ہیں اور شہر میں اس دھندے کو بند کرا دیا جاتا ہے۔