محمد نعمان اشرف:
گزشتہ کئی برس سے شہر کا ٹریفک، بلدیہ عظمیٰ کراچی کے سٹی وارڈنز کے ذریعے کنٹرول کرنے کا فارمولا ناکام ثابت ہو چکا ہے۔ یاد رہے کہ غیر منقسم متحدہ قومی موومنٹ کے بانی کی ہدایت پر مصطفیٰ کمال کے دورِ نظامت میں ٹریفک وارڈنز کی اسامیاں تخلیق کی گئی تھیں۔
پرویزمشرف دور میں بھرتی کیے گئے متحدہ کے کارکنان کو ملیر کینٹ میں فوجی تربیت بھی دی گئی۔ اس شعبے کا قیام ہوتے ہی متحدہ کے رہنماوں اور ذمے دران نے اپنے رشے دار بھی بھرتی کروانا شروع کردیئے اور پھر کے ایم سی کا شعبہ سٹی وارڈن متحدہ کا ایک اور ’’یونٹ آفس‘‘ بن گیا تھا۔ سٹی وارڈنز، متحدہ کے دفاتر کے باہر بھی تعینات کیے گئے جبکہ کچھ سٹی وارڈنز متحدہ رہنماوں کے ساتھ سیکورٹی گارڈ کے طور پر تعینات کیے جاتے رہے۔
کے ایم سی کے سٹی وارڈنز متحدہ جلسوں اور ریلیوں کے لیے بھی استعمال کیے جاتے رہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ ماضی میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کے شعبہ سٹی وارڈنز کے خلا ف کئی بار تحقیقات کی گئیں۔ لیکن متحدہ کے دباؤ کے باعث تحقیقات سرد خانے کی نظر ہوتی رہیں۔ تحقیقات کرنے والے افسران کو متحدہ کی جانب سے ڈرایا دھمکایا جاتا رہا۔ متحدہ کے بھرتی کردہ سٹی وارڈنز کے ایم سی افسران پر بھی دھونس دھمکی جماتے رہے ہیں جس کے باعث شعبہ سٹی وارڈنز، گھوسٹ ملازمین کا گڑھ بن گیا ہے۔
’’امت‘‘ کو ایک سٹی وارڈن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’سٹی وارڈنز اب ملازمت پر آنے کے بجائے متحدہ سے تعلق رکھنے والے سابق کے ایم سی افسران کے گھروں پر اور بعض سٹی وارڈنز اینٹی کرپشن و دیگر محکموں کے دفاتر میں ملازمت کررہے ہیں۔ ماضی میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کے افسران کے خلاف نیب اور اینٹی کرپشن تحقیقات شروع کی گئی تھیں۔ انکوائری کرنے والے افسران کے گھروں پر سٹی وارڈنز تحفے کے طور پر تعینات کیے گئے۔ گلشن زون اینٹی کرپشن دفتر میں کئی سٹی وارڈنز ملازمت کرتے ہیں۔ اسی طرح لوکل گورنمنٹ بورڈ دفتر پر بھی سٹی وارڈن تعینات کیے گئے ہیں‘‘۔
ذرائع نے بتایا کہ بجٹ میں کے ایم سی سٹی وارڈنز کی تعداد 1500سو سے زائد ہے۔ لیکن ان کی تعداد 1250کے قریب بتائی جاتی ہے۔ ان میں سے بیشتر پارکس، پارکنگ، اینٹی انکروچمنٹ، کے ایم سی اسپتال و دیگر مقامات پر تعینات ہیں۔ 50 کے قریب کے ایم سی سٹی وارڈنز بلدیہ عظمیٰ کراچی کے مختلف محکموں میں تعینات ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ نگرانی نہ ہونے سے کے ایم سی سٹی وارڈنز ملازمت سے غیر حاضر رہتے ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ موجودہ اور سابق افسران کے گھروں پر ملازمت کر رہے ہیں۔
سابق میونسپل کمشنر کے ایم سی دانش سعید کے گھر پر بھی سٹی وارڈنز تعینات کیے گئے۔ سابق ایڈمنسٹریٹر لئیق احمد کے گھر پر بھی سٹی وارڈنز تعینات کیے گئے۔ سابق ڈائریکٹر ایچ آر ایم جمیل فاروقی کے گھر پر بھی سٹی وارڈن تعینات کیے گئے۔ سابق ایم سی متانت علی خان کے گھر پر بھی سٹی وارڈن تعینات ہیں۔ اس کے علاوہ سنیئر ڈائریکٹر انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی بشیر صدیقی کے زیر استعمال کے ایم سی سٹی وارڈنز کی موبائل اور ملازمین ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ افسران کے علاوہ دیگر محکموں میں بھی سٹی وارڈنز تعینات کیے گئے ہیں۔ اینٹی کرپشن گلشن زون اور لوکل گورنمنٹ بورڈ میں بھی سٹی وارڈن تعینات کیے گئے ہیں۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی سے فارغ ہونے والے افسران اپنے ہمراہ سٹی وارڈنز بھی لے گئے ہیں اور کئی سال سے سٹی وارڈنز ان کے گھریلو ملازم بنے ہوئے ہیں۔ برنس روڈ کے اطراف پارکس میں بھی سٹی وارڈن تعینات کیے گئے ہیں۔
محکمہ چارجڈ پارکنگ نے آپریشن کے لیے سٹی وارڈنز طلب کیے تھے۔ تاہم آپریشن کے بعد وہ سٹی وارڈنز واپس نہیں کیے گئے اور وہ سٹی وارڈنز مختلف کے ایم سی چارجڈ پارکنگ میں تعینات ہیں جو پرائیوٹ پارکنگ چلارہے ہیں۔ کے ایم سی کی کچھ پارکنگ سائٹس برسوں سے بند پڑی ہوئی ہیں یا پھر ان پر قبضہٰ ہوگیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گھر بیٹھے سٹی وارڈنز مذکورہ سائٹس چلارہے ہیں اور پارکنگ سائٹس سے آنے والی رقم کے ایم سی کے شعبہ چارجڈ پارکنگ کے افسران تک پہنچاتے ہیں۔
مذکورہ رپورٹ پر موقف کے لیے ڈائریکٹر سٹی وارڈنز راجا رستم کو فون کیا گیا،تاہم انہوں نے کال اٹینڈ نہیں کی۔