تحقیقات کا دائرہ محکمہ کسٹمز ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد تک وسیع کردیا گیا ہے، فائل فوٹو
 تحقیقات کا دائرہ محکمہ کسٹمز ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد تک وسیع کردیا گیا ہے، فائل فوٹو

ایرانی پٹرولیم کی اسمگلنگ میں 14 بڑے ڈیلرز ملوث

عمران خان :

ایف آئی اے کو 20 برس چلنے والے ایرانی ڈیزل و پٹرول کے بڑے نیٹ ورک کے اہم شواہد مل گئے ہیں۔ تحقیقات میں سامنے آنے والے اس ایک نیٹ ورک میں 14 پٹرولیم ڈیلر ملوث نکلے۔ تفتیش میں ایک گرفتار مرکزی ملزم پٹرولیم ڈیلر عبدالوارث کے موبائل فون کی چھان بین کے نتیجے میں سہولت کار کسٹمز افسران کے نام اور بات چیت سامنی آگئی ہے۔

تیل اسمگلروں سے صرف ایک زون کے علاقوں سے رشوت وصول کرنے والے لیاقت وصلی کسٹمز اہلکار کی 30 سے 40 ہزار ماہانہ تنخواہ ہے۔ تاہم گزشتہ برسوں میں اس کے ہاتھوں سے اربوں روپے اعلیٰ حکام تک پہنچے۔ جس میں سے یقینی طور پر اس نے اپنے حصے کے کروڑوں روپے رکھے۔ لیاقت وصلی نامی اہلکار کی پوسٹنگ ڈائریکٹوریٹ جنرل کسٹمز اسلام آباد میں ہے۔ جس پر تحقیقات کا دائرہ محکمہ کسٹمز ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد تک وسیع کردیا گیا ہے۔

’’امت‘‘ کو دستیاب دستاویزات کے مطابق ایف آئی اے کی ٹیم کو خفیہ اطلاعات موصول ہوئیں کہ ایرانی ڈیزل اور پٹرول کے منظم نیٹ ورک اہم کردار ایک کھیپ کے ساتھ سرگودھا روڈ فیصل آباد کے قریب ہے۔ اس پر ایف آئی اے ٹیم نے چھاپہ مارکر ملزم عبدالوارث کو گرفتار کیا۔ ملزم کی گاڑی رجسٹریشن نمبر ایف ڈی ایس 1465 سے موقع پر اسمگل شدہ 10 ہزار لیٹر ایرانی تیل برآمد ہوا۔

ملزم نے ابتدائی تفتیش میں انکشاف کیا کہ اس کی متعدد کسٹمز افسران اور اہلکاروں سے مضبوط سیٹنگ ہے۔ وہ گزشہ کئی برسوں سے نہ صرف کسٹمز انفورسمنٹ اور کسٹمز انٹیلی جنس کے کرپٹ افسران کی سہولت کاری سے ایرانی ڈیزل اور پٹرول منگوا رہا ہے۔ بلکہ اس پورے علاقے کی ایک درجن سے زائد پٹرولیم ایجنسیوں کو بھی اسمگل شدہ تیل سپلائی کروارہا ہے۔ اس کے عوض وہ تمام ڈیلرز سے رشوت کی رقم وصول کرکے کسٹمز افسران تک پہنچاتا ہے۔ ملزم کے موبائل کی چھان بین سے ایک درجن کے قریب کسٹمز افسران اور اہلکاروں کے نمبرز اور بات چیت کا ریکارڈ مل گیا ہے۔ اس ڈیٹا میں اسمگل شدہ ایرانی ڈیزل کی سپلائی کے عوض رشوت کے معاملات کے شواہد موجود پائے گئے۔

ملزم عبدالوارث نے مزید انکشاف کیاکہ وہ ایران سے اسمگلرز کے ذریعے منگوائے گئے تیل کو پہلے اپنی ایجنسی کے بڑے اسٹور میں ڈمپ کرتا ہے۔ اس کے بعد دیگر ڈیلرز کو بھجواتا ہے۔ اس پورے کام کیلئے وہ اپنے رابطے میں موجود 14 پٹرولیم ڈیلرز سے فی ڈیلر 2 لاکھ 50 ہزار روپے ہفتہ کی بنیاد پر جمع کرکے کسٹمز افسران کو دیتا ہے۔ جو ماہانہ ایک کروڑ 40 لاکھ بنتے ہیں اور یہ رقم سالانہ 16 سے 17 کروڑ روپے بنتی ہے۔ جو صرف ایک زون یعنی علاقے کے صرف 14 تیل ڈیلرز سے اسمگلنگ کی سہولت کاری کی مد میں جمع ہوکر مقامی علاقوں کے افسران تک ہیڈ آفس اسلام آباد تک پہنچتی ہے۔ ملزم نے ابتدائی پوچھ گچھ میں جن کسٹمز افسران سے گزشتہ 20 برس میں رابطے میں رہنے کا اعتراف کیا۔

ان میں کسٹمز سپاہی لیاقت وصلی، کسٹمز اہلکار وقاص گورایہ، سپرنٹنڈنٹ کسٹمز تنویر، انسپکٹر کسٹمز محمود ڈوگر، انسپکٹر کسٹمز رمضان شاہد، کسٹمز اہلکار انجم، کسٹمز اہلکار خالد گجر، کسٹمز اہلکار سلیم، کسٹمز انٹیلی جنس اہلکار مختار نون، کسٹمز افسر ذوالفقار واہلہ، کسٹمز اہلکار منصور شامل ہیں۔

ملزم کے موبائل کی چھان بین میں رشوت کے لین دین کے ٹھوس ثبوت ملے تو ایف آئی اے ٹیم نے کارروائی کو آگے بڑھانے کیلئے کسٹمز اہلکار لیاقت وصلی کو فون کروایا۔ جب لیاقت وصلی ملزم عبدالورث سے رشوت کی رقم وصول کرنے کیلئے کار رجسٹریشن نمبر بی وائے زیڈ 133 میں موقع پر پہنچا تو اسے بھی حراست میں لے لیا گیا۔ ملزم لیاقت کی کار میں سے مزید 18 لاکھ روپے برآمد ہوئے جو وہ کسٹمز افسران کے نام پر مختلف ملزمان سے جمع کرتا ہوا پہنچا تھا۔ ایف آئی اے کی جانب سے اس معاملے میں دونوں ملزمان کو گرفتار کر کے مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ جس میں ابتدائی طور پر ان 14 کسٹمز افسران اور اہلکاروں کے ساتھ ہی 14 پٹرولیم ڈیلرز کو بھی نامزد کر کے تفتیش کی جا رہی ہے اور جلد مزید سنسنی خیز انکشافات اور گرفتار یاں سامنے آنے کا امکان ہے۔

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اسمگلنگ کے تیل کیلئے مذکورہ سیٹ اپ کسٹمز فیصل آباد زون، کسٹمز ملتان، بہاولپور، خانیوال، سرگودھا، رحیم یار خان، بہاولنگر اورصادق آبادکیلئے بھی کام کر رہا تھا۔ یہاں سے کسٹمز حکام کے نام پر ایرانی ڈیزل اور پٹرول کے اسمگلرز اور ڈیلروں سے ماہانہ کروڑوں روپے کی وصولیاں کی جا رہی ہیں۔ جس کے تانے بانے اسلام آباد ہیڈ کوارٹرز اور ڈائریکٹوریٹ جنرل تک جاتے ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں پاکستان پٹرولیم کی صنعتوں سے منسلک قانونی درآمدگان کی جانب سے حکومت کو ہولناک اعداد وشمار بھیجے گئے۔ جن کے مطابق پاکستان میں اسمگل شدہ پٹرولیم مصنوعات کا حجم 1 لاکھ 20 ہزار میٹرک ٹن ہوچکا ہے۔ اس کے نتیجے میں قانونی درآمد کنندگان کی پٹرولیم مصنوعات کی کھپت میں 21 فیصد کی بڑی اور تاریخی کمی آئی ہے۔ جس کا واضح مطلب ہے کہ حکومتی خزانے کو ڈیوٹی ٹیکس کی مد میں کھربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔