امت رپورٹ:
مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک پہاڑ کی چوٹی پر، پانچ سرخ گائیں چارہ کھا رہی ہیں۔ ان کے ارد گرد، اسرائیلیوں کا ایک گروپ پُرامید نظریں جمائے کھڑا ہے۔ اگر سب کچھ منصوبہ بندی کے مطابق ہوتا ہے، تو یہودی عقیدے کے مطابق یہ گائیں دنیا کے خاتمے کا اعلان کر سکتی ہیں۔
یہودی روایت کہتی ہے کہ ایک بالکل سرخ گائے کی راکھ اس پاکیزگی کے لیے درکار ہے، جس سے مسجد الاقصیٰ کے مقام پر تیسرا ہیکلِ سلیمانی ( یہودی عبادت گاہ) تعمیر کرنے کی شرط پوری ہو جائے گی۔ اس کے بعد خیر و شر کا آخری معرکہ ہوگا اور دنیا کا خاتمہ ہوجائے گا۔
دراصل اس روایت کے پیچھے ناپاک صہیونی سازش کا منصوبہ چھپا ہے جو مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد اقصیٰ کی جگہ یہودی عبادت گاہ تعمیر کرنے سے متعلق ہے۔ انتہا پسند یہودی گروپوں کا کہنا ہے کہ یہ ہیکل، مقبوضہ بیت المقدس میں بلند سطح مرتفع پر تعمیر کیا جانا چاہیے، جہاں مسجد اقصیٰ اور گنبد صخرہ موجود ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ اس مقام پر تیسرے یہودی معبد کی تعمیر مسیحا کی آمد کا اعلان ہوگا۔
چھ روز قبل فلسطینی شہر نابلس کے قریب ایک غیر قانونی اسرائیلی بستی شیلو، کے مضافات میں چند درجن اسرائیلی ایک کانفرنس میں جمع ہوئے۔ تاکہ سرخ گائے کی مذہبی اہمیت پر تبادلہ خیال کیا جا سکے اور ان کی ایک جھلک بھی دیکھیں۔
وہاں موجود ایک اڑتیس سالہ اسرائیلی آباد کار چیم نے معروف نیوز ویب سائٹ مڈل ایسٹ آئی سے بات کرتے ہوئے کہا ’’یہ یہودی تاریخ کے لیے ایک نیا لمحہ ہے۔ وہ مسجد اقصیٰ کی جگہ تیسرے ہیکل کی تعمیر سے متعلق اپنے دیرینہ خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
تیسری یہودی عبادت گاہ کی تعمیر کے لیے قائم کردہ تھرڈ ٹیمپل کمیونٹی کے ارکان، ٹیمپل انسٹی ٹیوٹ کی قیادت میں، جس نے اس کانفرنس کا انعقاد کیا، برسوں سے ایک سرخ گائے کو تلاش کر رہے ہیں جو ان کے بقول تورات میں بیان کردہ خصوصیات کی حامل ہوگی۔ ایک ایسی سرخی مائل بھوری گائے جس پر کسی اور رنگ کا ایک دھبہ بھی نہ ہو، حتیٰ کہ اس کا ایک بال تک سفید یا سیاہ نہیں ہونا چاہیئے۔ جسے نہ کبھی ہل میں جوتا گیا ہو اور نہ کوئی اور کام لیا گیا ہو۔ اس کانفرنس میں موجود سرخ گائے کے پمفلٹ کے مترجم اکہتر سالہ یاہودا نے کہا ’’یہ گائیں امریکی ریاست ٹیکساس سے لائی گئی تھیں اور ان کی پاکیزگی کو برقرار رکھنے کے لیے انہیں خاص حالات میں پالا گیا۔‘‘
مکمل سرخ گائے دو ہزار برس سے نہیں دیکھی گئی، جب رومیوں نے دوسرے یہودی ہیکل ( عبادت گاہ )کو تباہ کیا تھا۔ تاہم 70 عیسوی میں کامل سرخ گائے کی جھلک نظر آئی۔ چنانچہ کچھ یہودی کارکنوں اور امریکی عیسائیوں نے سرخ گائیں کی افزائش نسل کا فیصلہ کیا، جن کا اعتقاد ہے کہ تیسرے یہودی ہیکل کی تعمیر ’’مسیح کی آمد اور آرمیگاڈون (نیکی اور بدی کی آخری عالمی جنگ ) کا سبب بنے گی‘‘۔
دو ہزار بائیس میں پانچ کم عمر سرخ گائیں، بہت دھوم دھام کے ساتھ ٹیکساس کے ایک کھیت سے اسرائیل پہنچیں۔ اب یہ گائیں آثار قدیمہ کے ایک پارک میں رکھی گئی ہیں۔چند روز پہلے شیلو کے مضافات میں ہونے والی ’’سرخ گائے کانفرنس‘‘ اگرچہ عام تقریبات جیسی تھی۔ یہودی ربی اور مذہبی اسکالرز تورات پڑھنے میں مصروف تھے۔ ہجوم میں سے چند لوگ مدھم روشنیوں کے نیچے آہستگی سے سر ہلارہے تھے۔ تاہم اس تقریب کو جو چیز منفرد بنارہی تھی وہ یہ تھی کہ پہلے دو مقررین اپنے کندھوں سے اسالٹ رائفلیں لٹکائے کھڑے تھے۔ شیلو آثار قدیمہ کے سربراہ کوبی مامو نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا ’’حزب اللہ کو اس کانفرنس کا پتا چل گیا ہے اور وہ ٹیلی گرام پر اس کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔‘‘
لبنانی مسلح تحریک حزب اللہ نے اس دن کے اوائل میں شمالی اسرائیل پر راکٹ برسائے تھے، یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے یہ راکٹ اس کانفرنس کی وجہ سے فائر کیے۔ تاہم نیوز ویب سائٹ کے مطابق اس کانفرنس نے عرب سوشل میڈیا کو ضرور متوجہ کرلیا ہے۔ کانفرنس کو مثلث صہیونی سازش قرار دے کر زیادہ تر طنزیہ و مزاحیہ پوسٹیں کی جارہی ہیں۔
تھرڈ ٹیمپل گروپ سے تعلق رکھنے والے ربی اضحاک مامو نے کرسچن براڈکاسٹنگ نیٹ ورک کو بتایا تھا کہ اس سال یہودی تہوار ’’پاس اوور‘‘ کے لیے ایک تقریب کا منصوبہ بنایا گیا تھا، جو اپریل کے آخر میں آتی ہے۔
غزہ میں اسرائیل سے لڑنے والی فلسطینی تحریک حماس نے سرخ گایوں سے جڑے منصوبے کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔ حماس کی قیادت کے ساتھ رابطے میں رہنے والے ایک سینئر فلسطینی ذریعے نے نومبر میں مڈل ایسٹ آئی کو بتایا تھا کہ مسجد اقصیٰ میں یہودیوں کی مستقل موجودگی کی کوششوں پر حماس نے گہری نظر رکھی ہوئی ہے۔ اس ذریعے کے بقول یہودی منصوبے میں صرف ایک چیز باقی رہ گئی ہے وہ ہے سرخ گائے کو ذبح کرنا، جو انہوں نے امریکہ سے درآمد کی ہیں۔ اگر انہوں نے ایسا کیا تو یہ تیسرے ہیکل کی تعمیر نو کا اشارہ ہوگا۔
جنوری میں، حماس کے عسکری ونگ کے ترجمان ابو عبیدہ نے سات اکتوبر کو غزہ کی پٹی کے قریب اسرائیل پر حملے کے سو دن مکمل ہونے کے موقع پر ایک تقریر کی۔ اس تقریر میں انہوں نے بتایا تھا کہ اسرائیل پر حملہ کرنے کے فیصلے کا سرخ گایوں کی درآمد اور اس کے پیچھے چھپے یہودی منصوبے سے براہ راست تعلق تھا، جو ترجمان کے بقول ’’پوری فلسطینی قوم کے جذبات کے خلاف جارحیت‘‘ ہے۔
لاس اینجلس سے تعلق رکھنے والا انیس سالہ طالب علم یاکوف صرف سرخ گائے دیکھنے کے لیے شیلو آیا۔ یاکوف نے نیوز ویب سائٹ کو بتایا ’’میں نے ساری زندگی سرخ بچھڑوں اور پہلے اور دوسرے ہیکلِ سلیمانی کے بارے میں سنا ہے،آج میں ان میں سے ایک یعنی سرخ گائیں دیکھنے کے موقع پر بہت پرجوش ہوں۔‘‘ تھرڈ ٹیمپل موومنٹ کے ایک پرانے رکن نے مڈل ایسٹ آئی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سرخ گائے کو ذبح کرنے اور مسجد اقصیٰ کی جگہ تیسرا ہیکل ( یہودی عبادت گاہ) بنانے کے درمیان بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ اس نے تیرہ مسائل کی نشاندہی کی جنہیں تعمیر شروع ہونے سے پہلے حل کرنے کی ضرورت ہے جس میں سے ایک، منصوبے کو قانونی شکل دینے کے لیے اسرائیل کی پارلیمنٹ سے اجازت حاصل کرنا ہے۔
انیس سو سڑسٹھ میں مشرقی بیت المقدّس پر قبضہ کرنے کے بعد سے اسرائیلی حکومت نے مسجد اقصیٰ کے احاطے میں یہودیوں کی عبادت اور موجودگی پر عثمانی دور کی سخت پابندیاں برقرار رکھی ہوئی ہیں۔ یروشلم کے چیف ربی نے انیس سو اکیس سے الاقصیٰ میں داخلے پر بھی پابندی لگا رکھی ہے۔ چیف ربی کے حکم نامے کے مطابق جب تک یہودی اپنی تطہیر نہ کرلیں یعنی پاک نہ ہو جائیں، مسجد اقصیٰ میں داخل نہ ہوں۔ اور ان کے نزدیک یہ پاکیزگی سرخ گائے کی راکھ کے بغیر ناممکن ہے۔ تھرڈ ٹیمپل کمیونٹی یہ امید لگائے بیٹھی ہے کہ شیلو کی سرخ گایوں کو ذبح کرنے سے یہودی لوگوں کو پاک ہونے کا موقع ملے گا، تاکہ وہ مسجد کے احاطے میں رسومات ادا کر سکیں اور عبادت کر سکیں۔
بار ایلان یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کی تحقیق سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ ایک گائے کی راکھ سے اتنا پانی پاک کیا جاسکتا ہے جو 660 ارب بار طہارت کے لیے کافی ہوگا۔ تھرڈ ٹیمپل کمیونٹی کے کچھ کارکنوں اور ربیوں نے اس سے قبل پاس اوور کے موقع پر مسجد الاقصیٰ کے احاطوں میں رسمی قربانیاں ادا کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن اسرائیلی فوجیوں نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا۔
تھرڈ ٹیمپل کمیونٹی کا ایک مسخرہ رکن فش مین یہ دور کی کوڑی لایا کہ مسجد اقصیٰ کا انتظام سنبھالنے والے وقف کو رقم یا ہدیہ کے عوض یہودیوں کے لئے مسجد کا احاطہ استعمال کرنے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔ جواب میں، وقف کے ترجمان فراس ال دیبس نے مڈل ایسٹ آئی کو کہا ’’انہیں اپنی کانفرنسوں میں جو چاہیں کہنے دیں۔ وقف ہمیشہ اپنی فیصلہ کن رائے پر زور دیتا ہے کہ مسجد اقصیٰ صرف مسلمانوں کے لیے ہے اور اس میں کسی قسم کی شراکت یا تقسیم قبول نہیں۔ اس نوعیت کی کانفرنسوں میں جو بات کی جاتی ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں جب تک کہ وہ سرکاری نہ ہوں۔‘‘